Qurbani Ke Janwar Ki Khal Zati Nafa Ke Liye Bech Di To Kya Karen?

قربانی کے جانور کی کھال ذاتی نفع کے لیے بیچ دی  تو کیا کرے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-12864

تاریخ اجراء:22ذیقعدۃ الحرام1444ھ/12جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے قربانی کی کھال  ایک ہزار روپےمیں  بیچ کر  اس رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں لے لیا۔ اب زید کو اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے  اور وہ اپنے کیے  پر شرمندہ ہے۔

   آپ سے  معلوم یہ کرنا ہے کہ زید اگر ایک ہزار روپے کسی مسجد میں دے دے یا کسی بھی نیک کام میں خرچ کردے، تو اس صورت میں زید برئ الذمہ ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قربانی کی کھال کو اپنے ذاتی استعمال کے لیے کسی ایسی چیز سے بدلنا جائز نہیں کہ جسے ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جاتا ہو مثلاً روپیہ پیسہ، کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ، اور اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اُس پر لازم ہے کہ وہ اسے صدقہ کرے کہ یہ مال اس کے حق میں خبیث ہے۔

   لہٰذا پوچھی گئی صورت میں زید پر لازم ہے کہ وہ اس ناجائز فعل سے توبہ کرے اور ایک ہزار روپے کسی بھی شرعی فقیر مستحقِ زکوٰۃ کی مِلک کردے تو اس صورت میں زید برئ الذمہ ہوجائے گا، ورنہ شرعی فقیر کو مالک بنائے بغیر مسجد یا کسی بھی نیک مصرف میں خرچ کرنے سے زید برئ الذمہ نہیں ہوگا۔

   قربانی   کرنے والے کا قربانی کی کھال  سے ایسی چیز  خریدنا  جسے ہلاک کرکے ذاتی نفع اٹھائے،  یہ جائز نہیں۔ فتاویٰ عالمگیری، رد المحتار، ہدایہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: و النظم للآخر لایشتری بہ مالا ینتفع بہ الاباستھلاکہ کالخل و الابازیر اعتبار ابالبیع بالدراھم والمعنٰی فیہ انہ تصرف علی قصد التمول“یعنی قربانی کی کھال سے ایسی چیز نہ خریدے جس کو ہلاک کرکے نفع اٹھائے جیسے سرکہ یا بیج کہ جس طرح دراہم سے نفع بطریق ہلاک ہوتاہے اسی طرح ان اشیاء سے بھی نفع بطریقِ ہلاک ہوتا ہے لہذا یہ بھی منع ہے، یہاں منع کی وجہ مال حاصل کرنے کی غرض سے تصرف کرنا ہے۔

   علامہ عینی علیہ الرحمۃ مذکورہ بالا عبارت  کی شرح کرتے ہوئے"بنایہ"میں فرماتے ہیں:”ای المعنٰی فی اشتراء  مالاینتفع بہ الابعد استھلاکہ انہ تصرف علی قصد التمول، وھو قد خرج عن جھتہ التمول، فإذا تمولته بالبيع وجب التصدق؛ لأن هذا الثمن حصل بفعل مكروه، فيكون خبيثا فيجب التصدق“یعنی ایسی چیز خرید نے کی ممانعت میں وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرکے نفع  حاصل کرنے کی صورت میں مال حاصل کرنے کی غرض سے تصر ف کرنا ہےحالانکہ قربانی مال حاصل کرنے کی غرض سے نہیں کی جاتی ۔ پس جب اس نے بیع کے ذریعے مال حاصل کرلیا  تو اب اس پر تصدق واجب ہے کیونکہ یہ ثمن ایک مکروہ فعل سے حاصل ہوا ہے پس یہ خبیث ہوا تو اس کا تصدق واجب ہوا۔(الھدایۃ مع البنایۃ، کتاب الاضحیۃ،  ج 12، ص54،  مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”البتہ یہ ناجائز ہے کہ اپنے یااپنے اہل وعیال اور اغنیاکے صَرف میں لانے کو گوشت یا کھال یا کسی جز کو بعوض ایسی اشیاء کے فروخت کرے جو استعمال میں خرچ ہوجائیں اور باقی نہ رہیں جس طرح روپیہ پیسہ یا کھانے پینے کی چیزیں یا تیل پھلیل وغیرہ کہ ان کے عوض اپنی نیت سے بیچنا تمول ہے اور نیت اغنیا مثل اپنی نیت کے ہے اور یہ جانور جس سے اقامت قربت ہوئی، اس قابل نہ رہا کہ اس کے کسی جز سے تمول کیا جائے۔ (فتاوٰی  رضویہ ، ج 20 ، ص469-468 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   بہارِ شریعت میں ہے:” قربانی کے چمڑے کو ایسی چیزوں سے بدل سکتا ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اوس سے نفع اٹھایا جائے جیسے کتاب، ایسی چیز سے بدل نہیں سکتا جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کیا جاتا ہو جیسے روٹی، گوشت، سرکہ، روپیہ، پیسہ اور اگر اوس نے ان چیزوں کو چمڑے کے عوض میں حاصل کیا تو ان چیزوں کو صدقہ کر دے۔(بھارِ شریعت، ج 03، ص 346، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   قربانی کی کھال اپنے ذاتی استعمال کے لیے پیسوں سے بیچی تو ان پیسوں کو صدقہ کرنا اور کسی شرعی فقیر کی ملک میں کرنا ضروری ہے۔ جیساکہ فتاویٰ رضویہ میں ہے : ”اگر کوئی شخص اس کی جِلد اپنے صَرف میں لانے کی نیت سے روپوں پیسوں کو بیچے ، تو بیشک قیمت اس کے حق میں خبیث ہوگی۔ "لانہ جزء من التمول کما نصوا علیہ وفی حدیث المستدرک من باع جلد اضحیتہ فلا اضحیۃ لہ"(کیونکہ بیچنا  مالداری کاجز ء ہے جیسا کہ فقہاء نے نص فرمائی ہے اورمستدرک کی حدیث میں ہے جس نے اپنی قربانی کی کھال فروخت کی تو اس کی قربانی نہیں ۔) وہ قیمت نہ مسجد میں دے نہ مدرسہ میں "فان ﷲ طیب لایقبل الا الطیب"(اللہ طیب ہے وہ صرف طیب کو قبول فرماتاہے) بلکہ فقراء پر تقسیم اور تصدق کرے "کما ھو حکم مال الخبیث"(جیسا کہ ناپاک مال کا حکم ہے)۔(فتاوٰی  رضویہ ، ج 20 ، ص490 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”ہاں اپنے خرچ میں لانے کے لئے داموں کو بیچے تو اس کی سبیل تصدق ہےکہ ملک خبیث ہے براہ راست مدرسہ ومسجد میں نہ دے، "فان ﷲ طیب لایقبل الا الطیب"(بیشک اللہ تعالی طیب ہے اور صرف طیب کو قبول فرماتاہے) ۔(فتاویٰ  رضویہ ، ج 20 ، ص502 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم