مجیب:ابو محمد مفتی
علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13405
تاریخ اجراء: 07ذی الحجۃ
الحرام1445 ھ/14جون 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قربانی درست واقع ہونے
کے لیے قربانی کے جانور کا بڑے عیب سے پاک ہونا ضروری ہے،
احادیثِ مبارکہ اور فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق لنگڑا
جانور جو کہ لنگڑے پن کے سبب قربان گاہ تک پہنچنے کی بھی طاقت نہ
رکھتا ہو، ایسے جانور کی قربانی شرعاً جائز نہیں۔
پوچھی گئی صورت میں
اُس بیل کی اگلی ٹانگیں
ٹوٹنے کے سبب چونکہ اس میں بڑا عیب پیدا ہوگیا ہے، اس لیے
اب اُس بیل کی قربانی نہیں ہوسکتی، لہذا جن حصہ
داروں پر قربانی واجب ہے وہ دوسرا جانور لا کر یا پھر کسی بڑے
جانور میں حصہ ڈال کر اپنا واجب ادا کریں۔
مشکاۃ المصابیح کی حدیثِ مبارک میں ہے:”وعن البراء بن عازب أن رسول الله
صلى الله عليه و سلم سئل : ماذا يتقى من الضحايا ؟ فأشار بيده فقال : " أربعا
العرجاء والبين ظلعها والعرواء البين عورها والمريضة البين مرضها والعجفاء التي لا
تنقي" رواه مالك وأحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي ۔“یعنی حضرت
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کن جانوروں کی
قربانی سے بچا جائے، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے
ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ چار سے۔ وہ چار جانور یہ ہیں:
(1) ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا
پن ظاہر ہو۔ (2) کانا جانور جس کا
کانا پن ظاہر ہو۔ (3) ایسا مریض جانور جس کا مرض ظاہر ہو۔
(4) ایسا کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں مغز باقی نہ
رہا ہو۔ اس روایت کو امام مالک، امام احمد،امام ترمذی، امام ابو داؤد، امام نسائی،
امام ابن ماجہ اورامام دارمی رحمۃ
اللہ علیہم نے روایت کیا ہے۔ (مشكاة المصابيح،
کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 461، بيروت)
قربانی کے جانور کا
بڑے عیب سے سلامت ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں
ہے:” وأما الذي يرجع إلى محل
التضحية فنوعان: أحدهما: سلامة المحل عن العيوب الفاحشة؛ فلا تجوز العمياء ولا
العوراء البين عورها والعرجاء البين عرجها وهي التي لا تقدر تمشي برجلها إلى
المنسك ۔“ ترجمہ: ” بہر حال وہ شرائط جو قربانی
کے جانور کی طرف لوٹتی ہیں ، اس کی دو اقسام ہیں،
ان میں سے ایک یہ ہے کہ قربانی کے جانور کا بڑے عیب
سے سلامت ہونا ضروری ہے، لہذا اندھے جانور، کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو، لنگڑا جانور جس کا
لنگڑا پن ظاہر ہو، ان کی قربانی جائز نہیں ۔ یہاں
لنگڑے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر چل کر قربان گاہ تک نہ جاسکے۔
“ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، کتاب
التضحیۃ ،ج05،ص75 ،دار الكتب
العلمية، بيروت)
جن جانوروں کی قربانی
ناجائز ہے، اس کے متعلق بہارِ شریعت میں مذکور ہے:” لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے۔ “(بہارِ شریعت،ج3،ص341،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟