قربانی کے جانور کا دودھ استعمال کرنا
مجیب: مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-7865
تاریخ اجراء: 06 ذی القعدۃ الحرام 1443ھ/06جون 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ ہم نے قربانی کی نیت سے ایک بکری خریدی ہے اور اب اس نےدودھ دینا شروع کر دیا ہے ، تو کیا ہم وہ دودھ استعمال کر سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جب جانور کو قربانی کی نیت سے خرید لیا جائے ، تو اُس جانور سے ہر قسم کی مَنْفَعَتْ یعنی نفع حاصل کرنا مکروہ وممنوع ہو جاتاہے ، کیونکہ وہ جانور اپنے تمام اجزاء کے ساتھ قُربت (یعنی نیکی)کے لیے متعین ہوچکا ہے اور یہ قربت اُسی وقت حاصل ہوگی جب اللہ تعالیٰ کے نام پر اس جانور کا خون بہایا جائے ، اس لیے جب تک جانور سے یہ اصل غرض حاصل نہ ہوجائے ، تب تک اس سے ہر قسم کا انتفاع مکروہ و ممنوع ہے ۔ مَنْفَعَتْ حاصل کرنے سے مراد ذبح سے پہلے کسی بھی انداز میں اُس جانور سے فائدہ حاصل کرنا ہے ، مثلاً اُون اتار کر بیچنا یا خود استعمال کرنا، دودھ دوہنا ، سواری کرنایا کرائے پر دینا وغیرہا ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ اس بکری کا دودھ استعمال نہیں کر سکتے ، بلکہ اولاً اس کے تھنوں پر ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کریں تاکہ تھن خشک ہو جائیں اور اگر اس سے کام نہ چلے اور دودھ دوہنا ہی پڑے ، تو دودھ نکال کر اُسے صدقہ کریں ، نیز اگر اس سے پہلے اس قربانی کے جانور کا دودھ دوہ چکے ہیں ، تو اُسےہی یااگر اُسے بیچ دیا یا استعمال کر لیا ہے ، تو اُس کی قیمت شرعی فقیر پر صدقہ کرنا لازم ہے۔
قربانی کےجانور سے نفع اٹھانے کی ممانعت کے متعلق علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتے ہیں:”يكره له ان يحلب الاضحية، ويجز صوفها قبل الذبح، وينتفع به، لان الحلب والجز تفويت جزء منها، وقد التزم التضحية بجميع اجزاءها، فلا يجوز له ان يحبس شیئا منها، وان فعل ذلك تصدق بها“ یعنی ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کا دودھ دوہنا اور اُس کی اُون کاٹ کر اُس سے نفع حاصل کرنا مکروہ ہے، کیونکہ دودھ دوہنا اور اُون اُتارنا قربانی کے جانور کے جزء کو ضائع کرنا ہے، حالانکہ وہ شخص اُس جانور کے تمام اجزاء سمیت اُس کی قربانی اپنے اوپر لازم کر چکا ہے، لہذا(قربانی سے پہلے)اِس شخص کو اُس جانورمیں سے اپنے لئے کسی چیز کو استعمال کرنا جائز نہیں، اور اگر ایسا کرلیا تو اُس (حاصل شدہ) چیز کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔ (المحیط البرھانی، کتاب الاضحیۃ،الفصل الساد س الانتفاع بالاضحیۃ ، جلد6، صفحہ94، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
قربانی کے جانور سے مَنْفَعَتْ حاصل کرنے کی ممانعت کی علت بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”والسرفی ذٰلک مایستفاد من کلمات العلماء الکرام ان اصل القربۃ فی الاضحیۃ انما تقوم باراقۃ الدم لوجہ ﷲ تعالی فمالم یرق لایجوز الانتفاع بشیئ منہ حتی الصوف واللبن وغیر ذٰلک لانہ نوی اقامۃ القربۃ بجمیع اجزائھا“ترجمہ : اور قربانی کے جانور سے انتفاع کی ممانعت کا راز جو کلماتِ فقہاء سے مستفاد ہوتاہے وہ یہ ہے کہ قربانی کی نیکی اسی صورت میں مکمل ہوتی ہے جب اللہ کی رضا کےلیے جانور کا خون بہا دیا جائے ، تو جب تک یہ قربت واقع نہیں ہو گی ، قربانی کے جانور سے ہر قسم کا نفع اٹھانا ، جائز نہیں ہو گا ، حتی کہ اُون اور دودھ وغیرہ سے بھی ، اس لیے کہ جو انسان قربانی کا جانور خریدتا ہے وہ اس کے تمام اجزا کے ساتھ قربت یعنی نیکی کرنے کی نیت کر چکا ہوتا ہے ،ا س لیے جب تک جانور سے یہ اصلِ غرض حاصل نہیں ہوتی ، اس سے ہر قسم کا انتفاع مطلقا منع ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد20،صفحہ511 ، 512،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اور قربانی کا جانور دودھ دینے والا ہو ، تو اُس کے متعلق تفصیلی حکم بیان کرتے ہوئے ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:”فان کان فی ضرعھا لبن وھو یخاف علیھا ان لم یحلبھا نضح ضرعھا بالماءالبارد حتی یتقلص اللبن لانہ لا سبیل الی الحلب ولاوجہ لابقائھا کذلک لانہ یخاف علیھا الھلاک فیتضرر بہ، فتعین نضح الضرع بالماء البارد لینقطع اللبن فیندفع الضرر، فان حلب تصدق باللبن“ ترجمہ: اگر قربانی کے جانور کے تھنوں میں دودھ موجود ہو اور اگر دودھ نہ دوہے تو جانور کے ہلاک یا بیمار ہونے کا خوف ہو، تو اُسے چاہیے کہ اُس کے تھنوں پر ٹھنڈا پانی چھڑکےیہاں تک کہ تھن کا دودھ خشک ہو جائے، کیونکہ بلاعذر دودھ دوہنے کی شرع میں کوئی راہ نہیں اور یونہی دودھ کو تھنوں میں باقی رکھنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے ، کیونکہ اِس صورت میں جانور کی ہلاکت کا اندیشہ ہے، جس سے مالک کو ضرر پہنچے گا، لہٰذا تھنوں پر ٹھنڈا پانی ڈالنے کا حکم متعین اور لازم ہو گیا، تاکہ دودھ روکا جا سکے اور ضرر دور ہو جائے، لیکن اگر دودھ دوہ لیا ، تو اُس دودھ کو صدقہ کرے۔(بدائع الصنائع، کتاب التضحیہ، جلد4، صفحہ220، مطبوعہ کوئٹہ )
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”جانور دودھ والا ہے تو اُس کے تھن پر ٹھنڈا پانی چھڑکے کہ دودھ خشک ہو جائے اگر اس سے کام نہ چلے ، توجانور کو دوہ کر دودھ صدقہ کرے۔“(بھارِ شریعت، جلد3، صفحہ347، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
دودھ بیچنے کی صورت میں قیمت صدقہ کرنے کے بارے میں فتاویٰ عالمگیری میں ہے:” ولو اشتری بقرۃ حلوبۃ واوجبھا اضحیۃ فاکتسب مالا من لبنھا یتصدق بمثل مااکتسب“ ترجمہ: اگر کسی نے بطورِ قربانی گائے خریدی اور اُس کے دودھ کے ذریعے مال کمایا، تو اُس مالک نے جتنا کمایا، اُتنی مقدار برابر مال صدقہ کرے گا۔(الفتاوى الھندیۃ، کتاب الاضحیہ ، جلد5، صفحہ301، مطبوعہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:” ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کے لیے کاٹ لینا یا اُس کا دودھ دوہنا مکروہ و ممنوع ہے اور قربانی کے جانور پر سوار ہونا یا اس پر کوئی چیز لادنا یا اس کو اُجرت پر دینا غرض اس سے منافع حاصل کرنا منع ہے اگر اس نے اون کاٹ لی یا دودھ دوہ لیا تو اسے صدقہ کر دے اور اُجرت پر جانور کو دیا ہے تو اُجرت کو صدقہ کرے اور اگر خود سوار ہوا یا اس پر کوئی چیز لادی تواس کی وجہ سے جانور میں جو کچھ کمی آئی ، اتنی مقدار میں صدقہ کرے۔“(بھارِ شریعت، حصہ 15،جلد3،صفحہ347، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟