مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13406
تاریخ اجراء:08ذی الحجۃ الحرام1445ھ/15جون 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ زید کا ریسٹورنٹ ہے جس میں وہ مختلف کھانے بنا کر فروخت کرتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ زید اپنی قربانی کے گوشت کو اُسی ریسٹورنٹ میں بننے والے کھانوں میں استعمال کرکے اُسے آمدنی کا ذریعہ بنائے؟ شریعت اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں زید کا قربانی کے گوشت کو اپنے ریسٹورنٹ کے کھانوں میں استعمال کرکے فروخت کرنا، شرعاً جائز نہیں ۔
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ قربانی کے جانور سےچونکہ قربت کی نیت کی گئی ہے لہذا اس کے کسی بھی جزء سے تمول جائز نہیں۔ یہاں تمول سے مراد اپنے ذاتی فائدے کے لیے یا پھر اپنے اہل و عیال و اغنیاء کے لیے قربانی کے کسی بھی جزء کو ایسی کسی چیز سے بدل دینا ہے کہ جو استعمال کرنے سے خرچ ہوجائے اور اس سے مالی فائدہ حاصل کیا جائے ۔ مثال کے طور پر قربانی کے جانور کی کھال، گوشت، چربی وغیرہ کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے یا پھر اپنے اہل و عیال کے لیے روپیہ، پیسہ، کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ سے بدل دینا، تمول ہے جو کہ ناجائز ہے۔
البتہ ایسی کسی چیز سے بدلنا کہ جسے باقی رکھ کر نفع حاصل کیا جاتا ہو مثلاًقربانی کے چمڑے کو کتاب، کپڑے، چٹائی وغیرہ سے بدل دیا جائے، تو یہ جائز ہے کہ یہاں بدل مبدل منہ کے قائم مقام ہوگا، گویا یہ عین ہی سے نفع اٹھانا ہوا۔ مگر یہ ضرور یاد رہے کہ اُس باقی رہنے والی شے کو آگے اگر ایسی کسی چیز سے بدل دیا کہ جسے ہلاک کرکے نفع اٹھایا جاتا ہو تو یہ بھی تمول ہی ہے اور شرعاً ناجائز ہے، مثلاً قربانی کے چمڑے کو چٹائی سے بدل کر اُس چٹائی کو پیسوں کے بدلے میں آگے فروخت کردیا یا پھر رقم کے عوض آگے کرایہ پر دے دیا تو یہ جائز نہیں، حاصل ہونے والے نفع کو صدقہ کرنا لازم ہے کہ یہ نفع اس کے حق میں مالِ خبیث ہے۔
قربانی کے اجزاء میں ایسا تصرف کہ جس میں تمول پایا جائے، جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے:”( ويتصدق بجلدها ) لأنه جزء منها ( أو يعمل منه آلة تستعمل في البيت ) كالنطع والجراب والغربال ونحوها ، لأن الانتفاع به غير محرم ( ولا بأس بأن يشتري به ما ينتفع بعينه في البيت مع بقائه ) استحسانا ، وذلك مثل ما ذكرنا لأن للبدل حكم المبدل ، ( ولا يشتري به ما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه كالخل والأبازير ) اعتبارا بالبيع بالدراهم۔ والمعنى فيه أنه تصرف على قصد التمول ، واللحم بمنزلة الجلد في الصحيح۔“یعنی قربانی کی کھال کو صدقہ کردے کہ یہ اُسی جانور کا جزء ہے یا پھر اُس کی کھال سےگھر میں استعمال ہونے والے آلات بنائے جائیں مثلا بچھونا، تھیلا، چھلنی جیسی چیزیں، کیونکہ کھالوں سے انتفاع حرام نہیں ہے۔ اور ان سے گھر میں استعمال کے لئے ایسی چیز خریدنا کہ جو بعینہ باقی رہیں، استحساناً اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی مثال ہماری ذکر کردہ چیزیں ہیں، کیونکہ بدل کاحکم مبدل منہ والا ہے۔ ہاں! ایسی کسی بھی چیز سے بیع کرنا ، جائز نہیں کہ جسے ہلاک کرکے نفع اٹھایا جاتا ہو، جیسا کہ سرکہ اور غلہ ، دراہم و دینارکا اعتبار کرتے ہوئے کہ میں اس میں تمول کے طور پر تصرف کرنا ہے اور یہ ممنوع ہے۔ یاد رہے کہ صحیح مذہب میں گوشت کھال کے حکم میں ہے ۔
(والمعنى فيه أنه تصرف على قصد التمول)کے تحت بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:”ای المعنٰی فی اشتراء مالاینتفع بہ الابعد استھلاکہ انہ تصرف علی قصد التمول، وھو قد خرج عن جہۃ التمول، فإذا تمولته بالبيع وجب التصدق؛ لأن هذا الثمن حصل بفعل مكروه، فيكون خبيثا فيجب التصدق۔“ترجمہ: ”یعنی ایسی چیزیں خرید نے کی ممانعت میں وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرکے نفع کی حاصل کرنے کی صورت میں مال حاصل کرنے کی غرض سے تصر ف کرنا ہےحالانکہ قربانی مال حاصل کرنے کی غرض سے خارج ہے۔ پس جب اس نے بیع کے ذریعے مال حاصل کرلیا تو اس پر تصدق واجب ہے کیونکہ یہ ثمن ایک مکروہ فعل سے حاصل ہوا ہے پس یہ خبیث ہوا تو اس کا تصدق واجب ہوا۔ “(البنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الاضحیۃ، ج 12، ص 54-55، مطبوعہ بیروت)
قربانی کرنے والے کا قربانی کے جانور کے اجزاء کو ایسی کسی چیز سے بدلنا کہ جسے ہلاک کرکے ذاتی نفع اٹھائے یہ جائز نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری، رد المحتار، بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للآخر“ ولا يحل بيع جلدها وشحمها ولحمها وأطرافها ورأسها وصوفها وشعرها ووبرها ولبنها الذى يحلبه منها بعد ذبحها بشئ لا يمكن الانتفاع به الا باستهلاك عينه من الدراهم والدنانير والمأكولات والمشروبات “یعنی قربانی کے جانور کی کھال، چربی، گوشت، اعضاء، سر، اون، بال، وہ دودھ کہ جسے جانور ذبح کرنے کے بعد دوہا ہو، ایسی کسی بھی چیز سے بیع کرنا ، جائز نہیں کہ جسے ہلاک کرکے نفع اٹھایا جاتا ہو، جیسا کہ دراہم و دینار، کھانے پینے کی اشیاء۔(بدائع الصنائع ، کتاب النذر،ج05،ص81 ،دار الكتب العلمية، بيروت)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:” (فإن بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدراهم تصدق بثمنه) “یعنی اگر گوشت یا کھال کو ہلاک ہونے والی چیز کے عوض یا دراہم کے عوض بیچا تو اس کا ثمن صدقہ کیا جائے گا ۔(تنویر الابصار مع الدر المختار ، کتاب الاضحیۃ، ج 09، ص 543، مطبوعہ کوئٹہ)
قربانی کے چمڑے کو تھیلا بناکر آگے کرایہ پر دیا تو اُس کرایہ کو صدقہ کرنا ہوگا۔ جیسا کہ رد المحتار میں ہے:”و فی الدر المنتقی عن الظھیریۃ : لو عمل بالجلد جراباً و اجرہ لم یجز و علیہ التصدق بالاجرۃ۔ “یعنی درِ منتقی میں ظہیریہ کے حوالے سے منقول ہے کہ اگر کسی نے قربانی کے چمڑے پر عمل کرکے اُسے تھیلا بنایا پھر اُس موزے کو آگے اجرت پر دے دیا تو ایسا کرنا اُس کے لیے جائز نہیں، اس پر لازم ہے کہ وہ اس اجرت کو صدقہ کردے ۔(الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب الاضحیۃ، ج 09، ص 544، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”البتہ یہ ناجائز ہے کہ اپنے یااپنے اہل وعیال اور اغنیاکے صرف میں لانے کو گوشت یا کھال یا کسی جز کو بعوض ایسی اشیاء کے فروخت کرے جو استعمال میں خرچ ہوجائیں اور باقی نہ رہیں جس طرح روپیہ پیسہ یا کھانے پینے کی چیزیں یا تیل پھلیل وغیرہ کہ ان کے عوض اپنی نیت سے بیچنا تمول ہے۔ اور نیت اغنیا مثل اپنی نیت کے ہے۔ اور یہ جانور جس سے اقامت قربت ہوئی، اس قابل نہ رہا کہ اس کے کسی جز سے تمول کیا جائے۔ ۔۔۔۔ خلاصہ یہ کہ بعد قربانی اس کے اجزاء میں ہر قسم کا تصرف غنی کو حلال ہے۔ مگر وہ جس میں معنی تمول پائے جائیں ۔“(فتاوٰی رضویہ ، ج 20 ، ص469-468 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور، ملتقطاً )
مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ” (قربانی کی کھال کو)باقی رکھ کریا باقی رہنے والی چیز سے بدل کر اسے کرائے پر نہیں دے سکتا مثلا کھال کی مشک بنائی یا اس سے کوئی برتن خریدا، اور اس مشک یابرتن کو کرایہ پر دیا یہ ناجائز ہے۔ اس کرائے کو تصدق کرنا ہوگا۔ “(فتاوٰی رضویہ ، ج 20 ، ص492 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
بہارِ شریعت میں ہے:” قربانی کے چمڑے کو خود بھی اپنے کام میں لاسکتا ہے یعنی اس کو باقی رکھتے ہوئے اپنے کسی کام میں لاسکتا ہے مثلاً اس کی جانماز بنائے، چھلنی، تھیلی، مشکیزہ، دسترخوان، ڈول وغیرہ بنائے یا کتابوں کی جلدوں میں لگائے یہ سب کر سکتاہے۔ چمڑے کا ڈول بنایا تو اسے اپنے کام میں لائے اُجرت پر نہ دے اور اگر اُجرت پر دے دیا تو اس اُجرت کو صدقہ کرے۔ قربانی کے چمڑے کو ایسی چیزوں سے بدل سکتا ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اس سے نفع اٹھایا جائے جیسے کتاب، ایسی چیز سے بدل نہیں سکتا جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کیا جاتا ہو جیسے روٹی، گوشت، سرکہ، روپیہ، پیسہ اور اگر اس نے ان چیزوں کو چمڑے کے عوض میں حاصل کیا تو ان چیزوں کو صدقہ کر دے۔۔۔۔۔ گوشت کا بھی وہی حکم ہے جو چمڑے کا ہے کہ اس کو اگر ایسی چیز کے بدلے میں بیچا جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کیا جائے تو صدقہ کر دے۔ قربانی کی چربی اور اُس کی سری، پائے اور اون اور دودھ جو ذبح کے بعد دوہا ہے ان سب کا وہی حکم ہے کہ اگر ایسی چیز اس کے عوض میں لی جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کریگا تو اس کو صدقہ کر دے۔ “(بہارِ شریعت، ج 03، ص 346-345، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟