مجیب:مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-2819
تاریخ اجراء:20ذوالحجۃالحرام1445
ھ/27جون2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
قربانی کے دنوں میں
ناخن اور بال نہیں کاٹ سکتے لیکن
اگر کام کرنے میں ناخن خود ہی
ٹوٹ جائے توکیا قربانی کا عمل
ماناجائے گا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قربانی کرنے والے کے لیے
قربانی ہونے تک بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم مستحب ہے، اس پر عمل کرنا بہتر
ہے۔ البتہ واجب و فرض نہیں ۔
لہذا اگر کوئی جان بوجھ کر بھی کاٹ لیتا ہے تو اس کا یہ
عمل اگرچہ بہتر نہیں ہے لیکن
اس پر گناہ نہیں ہے اور اس سے قربانی
پرکوئی اثرنہیں پڑے گا،قربانی درست ہوجائے گی ،
اورجب جان بوجھ کرکاٹنے کی صورت میں قربانی پراثرنہیں
پڑتاتوخودبخودٹوٹ جانے سے توبدرجہ اولی قربانی پرکوئی اثرنہیں
پڑے گا۔
البتہ!
یہ ضروریادرہے کہ ناخن وغیرہ
کاٹے ہوئے چالیس دن ہو چکے ہوں تو اب ذوالحجہ کے دن آنے کے
باوجود انہیں کاٹنا ضروری ہے
کہ چالیس دن سے زائد بڑھانا مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے۔
چنانچہ فتاوی رضویہ میں
لکھا ہے:’’یہ حکم صرف استحبابی
ہے، کر ے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ
سکتے ہیں، نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی
وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے ۳۱ (اکتیس)
دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن نہ تراشے ہوں، نہ خط بنوایا
ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہو گیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ
رکھتا ہو، اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا، اب دسویں تک رکھے گا، تو
ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہو جائےگااور چالیس دن سے زیادہ
نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لئے گناہ نہیں کر سکتا ۔ ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 20،
صفحہ 353، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مراۃ المناجیح میں لکھا ہے:’’جو امیر وجوباً یا فقیر
نفلاً قربانی کا ارادہ کرے، وہ بقر عید کا چاند دیکھنے سے قربانی
کرنے تک ناخن بال اور مردار کھال وغیرہ نہ کاٹے، نہ کٹوائے تاکہ حاجیوں
سے قدرے مشابہت ہو جائے، کہ وہ لوگ احرام میں حجامت نہیں کرا سکتے اور
تا کہ قربانی ہر بال، ناخن کا فدیہ بن جائے۔ یہ حکم
استحبابی ہے، وجوبی نہیں، لہذا قربانی والے پر حجامت نہ
کرانا بہتر ہے، لازم نہیں۔ اس سے معلوم ہو اکہ اچھوں سے مشابہت بھی
اچھی ہے ۔ ‘‘(مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 370، نعیمی
کتب خانہ، گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟