مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0131
تاریخ اجراء:29 ذو القعدۃ
الحرام 1444ھ/19 جون 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے
میں کہ جس شخص کا مال اس کے پاس
موجود نہیں ہے یعنی اس نے اپنا مال کسی کو قرض دیا
ہوا ہے اور ایام قربانی میں اسے وہ مال ملے گا بھی
نہیں، تو کیا اس پر قربانی واجب ہے؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جوشخص مال دار مالک نصاب ہو، لیکن اس نے
اپنا مال کسی کو قرض دیا ہوا ہو اور اسے یہ ظن غالب ہو کہ
اگر یہ قرض دار سے قربانی کے بقدر پیسے مانگے، تو وہ اسے دے دے گا ،تو ایسی صورت میں اس سے
قربانی کے بقدر پیسے لے کر قربانی کرنا لازم ہوگااور اگر
یہ ممکن نہ ہو تو اگر اس شخص
کے پاس سونا، چاندی وغیرہ
یا گھر کا کوئی حاجت ِ اصلیہ سے زائد ایسا سامان ہے جسے
بیچ کر قربانی کرسکتا ہے، تو اس پر قربانی کرنا لازم ہوگااور اگر
کوئی صورت نہ بنے کہ نہ تواس کوایام قربانی میں وہ رقم مل
سکتی ہے اورنہ ہی اس کے پاس کوئی اورمال ہے،جس سے جانور
خرید سکے،تواس پر قربانی واجب نہیں اور اس صور ت میں اس پر
قرض لے کرقربانی کرنا لازم نہیں اور نہ ہی اپنا قرض واپس ملنے کے بعدقربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنالاز م
ہے۔
علامہ
ابن بزاز کردری رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی بزازیہ
میں فرماتے ہیں :’’لہ دین حال علی مقر ملیئ ولیس عندہ مایشتر
یھا بہ لایلزمہ الاستقراض ولا قیمۃ الاضحیۃ
اذا وصل الدین الیہ ولکن یلزمہ ان یسال منہ ثمن
الاضحیۃ اذا غلب علی ظنہ انہ یعطیہ ‘‘ترجمہ: صاحب نصاب کا کسی ایسے شخص
پر قرض فوری ہے،جس کاوہ اقرار کرتاہے اور اس کے پاس کوئی
ایسی شے نہیں کہ جس سے وہ قربانی کے لیے جانور
خرید سکے،تو اس پر قربانی کے لیے قرض لینالازم نہیں
اور نہ ہی قرض واپس ملنے پر قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ
کرنالازم ہے،لیکن اس کے لیے قربانی کی قیمت
جتنی رقم کا مقروض سےسوال کرنا لازم ہے،جبکہ اس کوظن غالب ہو کہ وہ دے دے
گا۔(الفتاوی البزازیۃ،کتاب
الاضحیۃ،جلد 02،صفحہ 406،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)
مزید فرماتےہیں :”لہ مال کثیر غائب في
ید مضاربہ أو شریکہ ومعہ متاع البیت ما یشتری بہ
الأضحیة تلزم “ترجمہ:اس کا کثیر مال یہاں موجود
نہیں،اس کےمضارب یا شریک کے قبضے میں ہے اور اس کے پاس
گھر کا سامان ہے جس کے ذریعے قربانی کا جانور خرید سکتا ہے، تو
قربانی لازم ہے ۔(الفتاوی البزازیۃ،کتاب
الاضحیہ،جلد 02،صفحہ 406،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)
یہی تفصیل کچھ الفاظ کے
معمولی فرق کے ساتھ فتاوٰی عالمگیری میں
یوں ہے:”لہ
دين حال أو مؤجل على مقر ملي وليس في يده ما يمكنه شراء الأضحية لا يلزمه أن
يستقرض فيضحي، ولا يلزمه قيمتها إذا وصل إليه الدين، لكن يلزمه أن يسأل منه ثمن
الأضحية إذا غلب على ظنه أنه يدفعه. له مال كثير غائب في يد شريكه أو مضاربه ومعه
ما يشتري به الأضحية من الحجرين أو متاع البيت تلزمه الأضحية “ترجمہ:
مفہوم و ہی ہے، جو اوپر گزرچکا ہے ۔
(الفتاوی
الھندیہ،کتاب الاضحیہ، جلد 05،صفحہ 380،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
علامہ عالم بن علاء انصاری رحمۃ
اللہ علیہ فتاوٰی تاتارخانیہ میں
فتاوٰی یتیمہ کے حوالے سے فرماتے ہیں :”سئل ایضا عن رجل لہ
دین مؤجل او غیر مؤجل علی رجل و ھو مقر حتی جاء یوم
النحر و لیس فی ید رب الدین شیئ یمکنہ شراء
الاضحیۃ ھل علیہ ان یستقرض و یشتری
اضحیۃ یضحی بھا ؟ فقال :لا،قیل لہ ھل یجب
علیہ قیمۃ الاضحیۃ اذا وصل الیہ الدین
بعد فوات الوقت؟ قال:لا،قیل: ھل
یجب علی رب الدین ان یسأل منہ عن الدین اذا غلب
علی ظنہ لو سال منہ ثمن الاضحیۃ یعطیہ ؟ فقال :نعم “ترجمہ:ایک
ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا دوسرے شخص پر
مؤجل یا غیر مؤجل قرض تھا اور مقروض اس کا اقرار کرنے
والاتھا،یہاں تک کہ قربانی کا دن آ گیا اور قرض خواہ کے
پاس کوئی ایسا مال نہیں جس کے ذریعے قربانی کا
جانور خریدنا ،ممکن ہو تو کیا
اس پر قرض لینا اور اس سے قربانی کا جانور خرید کر
قربانی کرنا واجب ہے ؟ تو امام علی
بن احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا کہ
نہیں ،تو پھر ان کی بارگاہ میں یہ عرض کیا گیا
کہ جب اس قرض خواہ کو قربانی کا وقت
ختم ہوجانے کے بعد قرض دی ہوئی رقم مل جائے،تو کیا اس پر
قربانی کے جتنی رقم صدقہ کرنا لازم ہوگا ؟ تو جواب ارشاد فرمایا
،نہیں،پھر ان کی بارگاہ میں یہ سوال کیا گیا
کہ جب قرض خواہ کو یہ ظن غالب ہو کہ
اگر وہ اس مقروض سے قربانی کے بقدر ثمن مانگے گا،تو وہ اسے دے دے گا، تو
کیا اس قرض خواہ پر مقروض سے اتنے قرض کا مطالبہ کرنا واجب ہوگا ؟ تو جواب
ارشاد فرمایا: ہاں۔(الفتاوی التاتارخانیۃ،کتاب
الاضحیہ، جلد 17،صفحہ 464،مطبوعہ کوئٹہ)
علامہ محقق ابن نجیم مصری
رحمۃاللہ علیہ نے بھی البحر الرائق میں اس مسئلہ کی
بعینہ یہی تفصیل تتمۃ الفتاوٰی کے
حوالے سے ذکر فرمائی ہے۔(البحر الرائق ،کتاب الاضحیہ،جلد 08،صفحہ
327،مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی عالمگیری
میں ہے:”ولو
کان علیہ دین بحیث لو صرف فیہ نقص نصابہ لا تجب وکذا لو
کان لہ مال غائب لا یصل إلیہ فی أیامہ‘‘ترجمہ:اگر
کسی شخص پر اتنا دَین ہو کہ وہ اپنامال اس دَین
کی ادائیگی میں صرف کر ے،تو نصاب باقی نہ رہے، تواس
پر قربانی نہیں ہے ۔اسی طرح جس شخص کامال اس کے پاس
موجود نہیں اور قربانی کے ایام میں وہ مال اسے ملے گا
بھی نہیں(بلکہ ایام قربانی کے بعد ملے گا،تواس پر
بھی قربانی واجب نہیں)۔(الفتاوی
الھندیۃ،کتاب الاضحیہ، جلد 05،صفحہ 361،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی
اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے
ہیں:”اگر اس کا مال یہاں
موجود نہیں ہے اور ایامِ قربانی گزرنے کے بعد وہ مال اوسے وصول
ہوگا، تو قربانی واجب نہیں۔“(بھارشریعت، جلد3،حصہ 15،صفحہ 333،مکتبۃ
المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟