Qarz Di Hui Raqam Par Qurbani Ka Hukum?‎

قرض دی ہوئی رقم پر قربانی کا حکم ؟

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:mad:1513

تاریخ اجراء:14ذوالحجۃ الحرام1436ھ/29ستمبر2015ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کے پاس ایک لاکھ روپے تھے ،رمضان المبارک میں اس نے وہ کسی کو بطور قرض دیے اور طے یہ پایا کہ قرض خواہ محرم الحرام میں واپس کرے گا،اب قربانی کے ایام قریب ہیں اور اس کے پاس کوئی اور مال نہیں اور اپنی رقم ان دنوں میں نہیں مل سکتی، کیا زید پر قربانی کرنالازم ہے یانہیں؟

سائل:عابد منان(جوہرٹاؤن،لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     صور ت مسئولہ میں زید کے لیے لازم ہے کہ قرض خواہ سے اتنی رقم کا مطالبہ کرے ، جس سے قربانی ہوسکے ، جب کہ اس کو ظن غالب ہوکہ وہ دے دے گا اور اگر کوئی صورت نہ بنے کہ نہ تو زید کوایام قربانی میں وہ رقم مل سکتی ہے اورنہ ہی اس کے پاس کوئی اورمال ہے ، جس سے جانور خرید سکے ، تواس پر قربانی واجب نہیں ۔اس صور ت میں اس پر قرض لے کرقربانی کرنالازم نہیں اور نہ ہی قرض ملنے کے بعد قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنالاز م ہے۔

     فتاوی بزازیہ میں ہے:’’لہ دین حال علی مقر ولیس عندہ مایشتر یھا بہ لایلزمہ الاستقراض ولا قیمۃ الاضحیۃ اذا وصل الدین الیہ ولکن یلزمہ ان یسال منہ ثمن الاضحیۃ اذا غلب علی ظنہ انہ یعطیہ ‘‘ترجمہ: صاحب نصاب کا کسی ایسے شخص پر قرض فوری ہے ، جس کاوہ اقرار کرتاہے اور اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں کہ جس سے وہ قربانی کے لیے جانور خرید سکے ، تو اس پر قربانی کے لیے قرض لینالازم نہیں اور نہ ہی قرض واپس ملنے پر قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنالازم ہے ،لیکن اس کے لیے قربانی کی قیمت جتنی رقم کاسوال کرنا اس کے لیےلازم ہے ، جبکہ اس کوظن غالب ہو کہ وہ دے دے گا۔(فتاوی بزازیہ،جلد2،صفحہ406،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

     فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ولو کان علیہ دین بحیث لو صرف فیہ نقص نصابہ لا تجب وکذا لو کان لہ مال غائب لا یصل إلیہ فی أیامہ‘‘ترجمہ:اگر کسی شخص پر اتنا دَین ہو کہ وہ اپنامال اس دَین کی ادائیگی میں صرف کر ے ، تو نصاب باقی نہ رہے تواس پر قربانی نہیں ہے ۔ اسی طرح جس شخص کامال اس کے پاس موجود نہیں اور قربانی کے ایام میں وہ مال اسے ملے گا بھی نہیں(بلکہ ایام قربانی کے بعد ملے گاتواس پر بھی قربانی واجب نہیں)۔(فتاوی عالمگیری،کتاب الاضحیۃ ،جلد5،صفحہ292،مطبوعہ کوئٹہ)

     صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : ’’اوس شخص پر دَین ہے اور اوس کے اموال سے دَین کی مقدارمُجرا کی جائے تو نصاب نہیں باقی رہتی ، اوس پر قربانی واجب نہیں اور اگر اس کا مال یہاں موجود نہیں ہے اور ایامِ قربانی گزرنے کے بعد وہ مال اوسے وصول ہوگا تو قربانی واجب نہیں۔‘‘(بہارشریعت،اضحیہ کا بیان،جلد3،حصہ 15،صفحہ 333،مکتبۃ المدینۃ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم