پچھلے سال کی قربانی میں جانور خرید کر زندہ صدقہ کرے یا پھر ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرے؟
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12197
تاریخ اجراء: 24شوال المکرم1443ھ/26مئی2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ صاحبِ نصاب اور مقیم شخص نے قربانی نہیں کی جبکہ اس نے قربانی کے لیے کوئی جانور بھی نہیں خریدا تھا۔ اب ایام قربانی گزرجانے کے بعد اس کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا وہ صاحبِ نصاب جانور خرید کر صدقہ کر دے یا اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کو صدقہ کر دے؟ کس طرح سے وہ برئی الذمہ ہوگا؟؟ رہنمائی فرمادیں۔
سائل: توصیف
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس صاحبِ نصاب شخص پر اوسطاً ایسی بکری کہ جس میں قربانی کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں اسے زندہ صدقہ کرنا یا پھر اس کی قیمت صدقہ کرنا، واجب ہے۔ نیز بلا وجہ شرعی قربانی نہ کرنے کے گناہ سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرنا بھی لازم ہے۔
البتہ قربانی کی قضا میں اب جانور کو ذبح نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:’’انھا لاتقضی بالاراقۃ لأن الاراقۃ لا تعقل قربۃ وانما جعلت قربۃ بالشرع فی وقت مخصوص فاقتصر کونھا قربۃ علی الوقت المخصوص فلا تقضی بعد خروج الوقت‘‘ترجمہ:قربانی کی قضا خون بہانے (یعنی جانور ذبح کرنے)سے نہیں ہوسکتی ،کیونکہ خون بہانا عقلاً قربت نہیں ہے ،اسے شرع کی وجہ سے ایک وقت مخصوص میں قربت قرار دیا گیا ہے ،تو اس کا قربت ہونا وقت مخصوص تک ہی محدود ہوگا ،وقت کے ختم ہونے کے بعد اس طرح قضا نہیں ہوسکتی۔ (بدائع الصنائع ، کتاب التضحیۃ، ج 06، ص 280، ادارۃ القرآن)
قربانی کی قضا میں جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرمختار میں ہے: ”(ولو تركت التضحية ومضت أيامها تصدق بقيمتها غني شراها أولا)۔۔۔۔فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها“ یعنی اگر صاحبِ نصاب نے قربانی نہ کی یہاں تک کہ ایامِ قربانی گزر گئے تو اب اس پر اس جانور کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے خواہ اس نے جانور خریدا ہو یا نہ خریدا ہو۔۔۔۔قیمت سے مراد ایسی بکری کی قیمت ہے کہ جو قربانی میں کافی ہو۔
مذکورہ بالا عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے: ”في البدائع أن الصحيح أن الشاة المشتراة للأضحية إذا لم يضح بها حتى مضى الوقت يتصدق الموسر بعينها حية كالفقير بلا خلاف بين أصحابنا ، فإن محمدا قال وهذا قول أبي حنيفة وأبي يوسف وقولنا اهـ ۔۔۔۔۔أن المراد إذا لم يشترها قيمة شاة تجزئ في الأضحية كما في الخلاصة وغيرها .قال القهستاني ، أو قيمة شاة وسط كما في الزاهدي والنظم وغيرهما“ ترجمہ: ”بدائع میں مذکور ہے کہ اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ جب غنی شخص نے قربانی کے لیے خریدی گئی بکری کو قربان نہ کیا یہاں تک کہ قربانی کا وقت گزرگیا تو اب اس غنی پر بعینہ وہی جانور زندہ صدقہ کرنا لازم ہے جیسا کہ فقیر پر زندہ جانور صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے اس میں ہمارے فقہاء کا کوئی اختلاف نہیں، امام محمد علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ یہ امام اعظم اور امام ابو یوسف علیہما الرحمہ اور ہمارا مؤقف ہے۔۔۔۔قیمت صدقہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب غنی شخص نے قربانی کا جانور نہ خریدا ہو تو اب وہ ایسی بکری کی قیمت صدقہ کرے کہ جس میں قربانی کی تمام تر شرائط پائی جاتی ہوں جیسا کہ خلاصہ وغیرہ میں مذکور ہے، علامہ قہستانی نے اسے نقل کیا ، یا پھر اوسطاً بکری کی قیمت مراد ہے جیسا کہ زاہدی اور نظم وغیرہ میں مذکور ہے۔“(درِ مختار مع ردالمحتار ، کتاب الاضحیۃ، ج 09، ص 533-531، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً و ملخصاً)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”چوں وقت گزشتہ است واجب است کہ ہر ایک ازیں سہ کساں قیمت گوسپندے کہ دراضحیہ کافی شود، برفقرا صدقہ کند (جب وقت گزر گیا تو ان کو چاہئے کہ وہ بکرے کی قیمت فقراء پر صدقہ کریں) فی الدارلمختار "ترکت التضحیۃ ومضت ایامہا تصدق غنی بقیمۃ شاۃ تجزئ فیہا"۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 20، ص 361، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے:”غنی نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا ہے تو وہی جانور صدقہ کر دے اور ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو مذکور ہوا اور خریدا نہ ہو تو بکری کی قیمت صدقہ کرے۔قربانی کے دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی اور جانور یا اس کی قیمت کو صدقہ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ دوسری بقرعید آ گئی اب یہ چاہتا ہے کہ سال گزشتہ کی قربانی کی قضا اس سال کرلے ، یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اب بھی وہی حکم ہے کہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔“(بہار شریعت، ج 01، ص 339-338، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوٰی فقیہِ ملت میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے:”(صورتِ مسئولہ میں) قربانی نہ ہونے کی صورت میں اگر سب پر قربانی واجب تھی تو ہر شخص پر ایک ایک بکری کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔“(فتاوٰی فقیہ ملت، ج 02، ص 248، شبیر برادرز لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟