Pichle Saal Ki Qurbani Na Ki Ho, To Kya Wo Is Saal Ho Sakti Hai?

پچھلے سال کی قربانی نہ کی ہو ، تو کیا وہ اس سال ہوسکتی ہے

مجیب:مولانا شفیق مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1366

تاریخ اجراء:13ذیقعدۃالحرام1439ھ/27جولائی2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کی سابقہ چار سال کی قربانیاں باقی ہیں ۔ وہ صاحب نصاب تھے ، مگر ان سالوں میں قربانی نہیں کی ۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ اس سال گائے وغیرہ لے کر سابقہ  چار سال کا حصہ بھی شامل کرلیا جائے اور اس سال کی بھی قربانی ادا کردیں ، تو کیا ایسا کرنے سے وہ بری الذمہ ہوجائیں گے یا کچھ اور طریقہ ہے ؟ رہنمائی فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورت مسئولہ میں ان پر سابقہ چار سالوں کی قربانی نہ کرنے کی وجہ سے چار بکریوں کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے ۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان کے بدلے میں اس سال بڑے جانورمیں حصے کی صورت میں  یا بکرا ،بکری قربان کردیں ،اس طرح کرنے سے سابقہ قربانیاں ادا نہیں ہوسکتیں ، کیونکہ صاحبِ نصاب پر  قربانی کے ایا م اگر گز ر جائیں اور جانور بھی قربانی کے لیے نہ خریدا ہو ، تو پھر بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم آتی ہے اور اگر اس سال گزشتہ سالوں کی نیت سے بڑے جانور میں حصہ ڈالیں گے ، تو موجودہ سال کی قربانی ہوجائے گی اور باقی گزشتہ سالوں کی طرف سے ادا نہیں ہوں گی ، محض نفل ہوں گی اور ایسی صورت میں سارے کا سارا گوشت ( یعنی موجودہ سال والی اور دوسری قربانیوں کا گوشت ) بھی صدقہ کرنا ہوگا ۔

    بدائع الصنائع میں ہے : ’’انھا لاتقضی بالاراقۃ لأن الاراقۃ لا تعقل قربۃ وانما جعلت قربۃ بالشرع فی وقت مخصوص فاقتصر کونھا قربۃ علی الوقت المخصوص فلا تقضی بعد خروج الوقت ‘‘ترجمہ:قربانی کی قضا خون بہانے (یعنی جانور ذبح کرنے)سے نہیں ہوسکتی ،کیونکہ خون بہانا عقلاً قربت نہیں ہے ،اسے شرع کی وجہ سے ایک وقت مخصوص میں قربت قرار دیا گیا ہے ،تو اس کا قربت ہونا وقت مخصوص تک ہی محدود ہوگا ،وقت کے ختم ہونے کے بعد اس طرح قضا نہیں ہوسکتی۔

(بدائع الصنائع ، جلد4، صفحہ 202 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    اسی میں ایام نحر کے بعد قیمت لازم ہونے کے بارے میں ہے : ’’وان کان لم یوجب علی نفسہ ولا اشتری وھو موسر حتی مضت أیام النحر تصدق بقیمۃ شاۃ تجوز فی الأضحیۃ ‘‘ترجمہ:اگر قربانی اپنے اوپرخود واجب نہیں کی تھی اور نہ ہی قربانی  کے لیے جانور خریدا تھا اور وہ صاحب نصاب بھی تھا (اور اس نے قربانی نہیں کی) یہاں تک کہ ایام نحر گزر گئے تو اب ایک ایسی بکری کی قیمت صدقہ کرے گا جس کی قربانی جائز ہوتی ہو۔                                                                                                                                                                                                                                         

(بدائع الصنائع ، جلد4، صفحہ 203 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    گزشتہ سالوں کی نیت سے حصہ ڈالنے کے متعلق رد المحتار میں ہے : ”لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضی تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين ، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد “ ترجمہ : ( بڑے جانور میں ) شرکاء میں سے کسی ایک نے موجودہ سال کی قربانی کی نیت کی اور باقیوں نے گزشتہ سالوں کی ، تو موجودہ سال والے کی نیت درست ہوجائے گی اور اس کے ساتھیوں کی نیت باطل ہوگی  اور ان کی قربانیاں نفل ہوں گی اور ان پر اور اس اکیلے پر ( جس نے موجودہ سال کی نیت کی تھی ، ان سب پر ) گوشت صدقہ کرنا لازم ہوگا ۔

 ( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الاضحیۃ ، جلد 9 ، صفحہ 540 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہارشریعت میں فرماتے ہیں:’’غنی نے قربانی کیلئے جانور خرید لیا ہے تو وہی جانور صدقہ کردے او ر ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو مذکور ہوا اور خریدا نہ ہو تو بکری کی قیمت صدقہ کرے۔ ‘‘

(بہارشریعت ، جلد 3 ، حصہ 15 ، صفحہ 338 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

    مزید اسی میں ہے : ’’ قربانی کے دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی اور جانور یا اس کی قیمت کو صدقہ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ دوسری بقرعید آ گئی اب یہ چاہتا ہے کہ سال گزشتہ کی قربانی کی قضا اس سال کرلے ، یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اب بھی وہی حکم ہے کہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔

 (بهارشریعت ، جلد 3 ، حصہ 15 ، صفحہ 339 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

    گزشتہ سالوں کی قربانی کی نیت سے حصہ ڈالا تو اس کے متعلق بہارِ شریعت میں ہی ہے : ” شرکا میں سے ایک کی نیت اس سال کی قربانی ہے اور باقیوں کی نیت سال گزشتہ کی قربانی ہے ، تو جس کی اس سال کی نیت ہے اوس کی قربانی صحیح ہے اور باقیوں کی نیت باطل ، کیونکہ سال گزشتہ کی قربانی اس سال نہیں ہوسکتی ۔ ان لوگوں کی یہ قربانی تطوّع یعنی نفل ہوئی اور ان لوگوں پر لازم ہے کہ گوشت کو صدقہ کر دیں بلکہ ان کا ساتھی جس کی قربانی صحیح ہوئی ہے ، وہ بھی گوشت صدقہ کر دے۔ “                   (بھار شریعت،جلد3،حصہ15 ،صفحہ343،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم