مجیب:ابوواصف محمد آصف عطاری
مصدق:مفتی
ابوالحسن محمد ہاشم
خان عطاری
فتوی نمبر:Jtl-1764
تاریخ اجراء:22ذوالقعدۃ الحرام 1445 ھ/31مئی 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ نبی اعظم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کون کون سے جانور کی قربانی
فرمائی ؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی مکرم،رسولِ
محتشم ،شافعِ اُمَم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے اونٹ ،گائے ،بکری
اور مینڈھے کی قربانی
فرماناثابت ہے۔
اونٹ کو نحرکرنے سے متعلق صحیح مسلم میں
حدیثِ پاک ہے:”ثم انصرف الی
المنحر فنحر ثلاثا وستین بیدہ ثم اعطی علیا فنحر ما غبر“یعنی:(حجۃ
الوداع کے موقع پر رمی سے فارغ
ہوکر)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربان گاہ کی طرف
تشریف لے گئے اور اپنے مبارک نورانی ہاتھ سے تریسٹھ (63)اونٹ نحر فرمائے؛پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اجازت عطافرمائی
اور انہوں نے بقیہ اونٹوں کو نحر فرمایا۔(صحیح المسلم،جلد4،کتاب الحج،باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ
وسلم،صفحہ 38،مطبوعہ دار الطباعہ ،ترکیا)
اونٹ کو نحرکرنے سے متعلق سننِ ابوداؤد میں
حدیثِ مبارک ہے:”وقرب لرسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم بدنات خمس او ست فطفقن یزدلفن الیہ بایتھن
یبدا“یعنی:رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
پانچ یا چھ اونٹ نحر کے لیے پیش کیے گئے،تو وہ اپنے آپ کو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے (مزید)قریب
کرنے لگےکہ کس سے حضور علیہ السلام نحر کرناشروع فرمائیں۔(سنن ابوداؤد،جلد2،کتاب المناسک،باب الھدی اذا عطب قبل ان یبلغ،صفحہ82،مطبوعہ دھلی،ھند)
گائے کی قربانی سے متعلق حديثِ پاک میں ہے:”ذبح رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم عن عائشۃ رضی
اللہ عنھا بقرۃ یوم النحر“یعنی:اللہ
پاک کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے ایک گائے کو ذبح فرمایا۔(سنن کبری للبیھقی،جلد5،کتاب الحج، باب نحر الابل
قیاما۔۔،صفحہ391،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)
حکیم الامت ،مفتی
احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہاِس حدیثِ پاک کے
تحت فرماتے ہیں:” گائے کی قربانی بھی سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔“ (مرآۃ المناجیح،جلد4،صفحہ 158،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)
حجۃ الوداع کے موقع
پرگائےقربان کرنے کے حوالےسے سنن ابن ماجہ میں ہے:”ان رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نحر عن آل محمد فی حجۃ الوداع بقرۃ واحدۃ“یعنی:سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے
موقع پر اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک گائے کو ذبح فرمایا۔(سنن ابن ماجہ،جلد4،ابواب الاضاحی ،صفحہ311،مطبوعہ دار الرسالۃ
العالمیہ)
مینڈھے کی قربانی
سے متعلق صحیح بخاری میں ہے:”وضحی بالمدینۃ
کبشین املحین اقرنین“ یعنی:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں
سینگوں والے سیاہ وسفید رنگ والے دو مینڈھوں کی
قربانی فرمائی۔(صحیح البخاری،جلد2،کتاب الحج،باب نحر البدن قائمۃ،صفحہ612،مطبوعہ دمشق)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:”ان رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم امر بکبش اقرن۔۔لیضحی بہ ۔۔واخذ
الکبش فاضجعہ ثم ذبحہ“یعنی:نبی
مکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے مینڈھے
کو قربانی کے لیےلانے کا حکم دیا۔۔پھر مینڈھے
کو پکڑ کر لٹادیا ،اِس کے بعد اسے ذبح فرمادیا۔(مسند احمد،جلد41،مسند الصدیقۃ عائشۃ
بنت الصدیق رضی اللہ عنھا،صفحہ39،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
بکری کی
قربانی سے متعلق مجمع الزوائد میں
ہے:”ان رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم اعطی حکیم بن حزام دینارا وامرہ ان یشتری بہ اضحیۃ فاشتری
فجاءہ من اربحہ فباع ثم اشتری ثم جاء الی النبی صلی اللہ
علیہ وسلم بدینار وشاۃ۔۔ واخذ الدینار
فتصدق بہ واخذ الشاۃ فضحی بھا“یعنی:نبی
اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے حضرت حکیم بن
حزام رضی
اللہ عنہ کو ایک دینار عطا فرمایا اور انہیں
اِس دینار کے ساتھ قربانی کا جانور خریدنے کا حکم دیا،انہوں
نے جانور خریدا ، تو نفع دینے
والا کوئی شخص آیا، تو آپ نے اسے بیچ دیا،پھر جانور خریدا
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں
ایک دینار اور بکری پیش کردی۔۔نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینار لے کر صدقہ کردیا، جبکہ بکری کو لے کر
اُس کی قربانی فرمائی۔ (مجمع الزوائد ومنبع
الفوائد،جلد4،کتاب البیوع،باب تصرف العبد،صفحہ161،مطبوعہ قاھرہ)
مشکاۃ المصابیح
مع مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”(کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یذبح)ای
الشاۃ والبقرۃ(وینحر)ای الابل (بالمصلی)“یعنی:اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں
بکری اور گائے کو ذبح، جبکہ اونٹ کو نحر فرماتے
تھے۔(مشکاۃ المصابیح مع مرقاۃ
المفاتیح،جلد3،کتاب الصلاۃ،باب فی الاضحیہ،صفحہ
509،مطبوعہ پشاور)
سُبُل الھدی والرشاد میں امام محمد بن یوسف صالحی شامی رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:942ھ) مختلف احادیث کے
لحاظ سے فرماتے ہیں :”کان رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم یضحی بالمدینۃ بالجزور احیانا وبالکبش اذا لم یجد جزورا۔۔ان رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم الف بین نسائہ فی بقرۃ۔۔۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم بعث الی سعد بن ابی وقاص بغنم فقسمھا بین اصحابہ“یعنی:رسول
اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں کبھی کبھی اونٹ کی قربانی کیا کرتے
تھے اور اونٹ نہ ہوتا ،تو مینڈھے کی
قربانی فرماتے۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قربانی کی)
ایک گائے میں اپنی
ازواج کو اکٹھے (شامل)کیا ۔۔رسول اللہ علیہ السلام نے (قربانی)کی
بکری حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجی
جس کو انہوں نے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کردیا۔ (سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر
العباد،جلد9،صفحہ117،121،مطبوعہ قاھرہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟