Nabi Aur Poori Ummat Ki Taraf Se Qurbani Aur Umrah Karna

نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام اورپوری امت کی طرف سے قربانی اورعمرہ کرنا

مجیب: ابوالفیضان عرفان احمد مدنی

فتوی نمبر:WAT-1806

تاریخ اجراء: 19ذوالحجۃالحرام1444 ھ/8جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا ایک قربانی نبی پاک  علیہ الصلوۃ والسلام اور ساری امت کی طرف سے قربان کی جا سکتی ہے ،اسی طرح ایک عمرہ  بھی نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام اور  ساری امت کی طرف سے کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں ! ایک قربانی  ، یونہی ایک عمرہ نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام  اور  ساری امت کی طرف سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایصالِ ثواب ہے اورایک عمل کے ایصالِ ثواب میں جس مسلمان کو چاہیں  شریک کر سکتے ہیں  ۔خودنبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ایک قربانی پوری امت کی طرف سےکیاکرتےتھے ،وہ ایصال ثواب ہی تھا۔

   اسی طرح یہ روایت بھی ہے کہ اپنی طرف سےایک قربانی کرکے دعاکرتے:"اے اللہ !اسے محمدعلیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے ،محمدعلیہ الصلوۃ والسلام کی آل کی طرف سےاورمحمدصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی امت کی طرف سے قبول فرما۔"

   اس کےتحت شارحین نے فرمایاکہ یہ قربانی آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی تھی اوراس کاایصال ثواب آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی آل اورامت کوعطافرمایا۔

   سنن ابن ماجہ میں ہے” عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان «إذا أراد أن يضحي، اشترى كبشين عظيمين، سمينين، أقرنين، أملحين موجوءين، فذبح أحدهما عن أمته، لمن شهد لله، بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ، وذبح الآخر عن محمد، وعن آل محمد صلى الله عليه وسلم“ ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جب قربانی کرنے کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے،فربہ،سینگ دار،چتکبرے اور خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے ، ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے جو اللہ عزوجل کی توحید اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ کی گواہی دیتے تھے اور دوسرا محمد اور آل محمد صلی اللہ تعالی علیہ وعلیھم وسلم کی جانب سے ذبح فرماتے۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الاضاحی،ج 2،ص 1043،حدیث 3122، دار إحياء الكتب العربية)

   مسلم شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ” أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، ويبرك في سواد، وينظر في سواد، فأتي به ليضحي به، فقال لها: «يا عائشة، هلمي المدية»، ثم قال: «اشحذيها بحجر»، ففعلت: ثم أخذها، وأخذ الكبش فأضجعه ، ثم ذبحه، ثم قال: «باسم الله، اللهم تقبل من محمد، وآل محمد، ومن أمة محمد، ثم ضحى به“ ترجمہ : رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے بکرے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلے،سیاہی میں بیٹھے،سیاہی میں دیکھے آپ کی خدمت میں حاضر کیا گیا تاکہ اس کی قربانی کریں فرمایا عائشہ چھری لاؤ پھر فرمایا اسے پتھر پر تیز کرلو،میں نے کرلیا پھر آپ نے چھری پکڑی اور بکرا پکڑکرلٹایا ،اسے ذبح کاارادہ کیاتویہ دعاکی:بِسْم اﷲ،الٰہی!  اسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ،آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم  اور امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قبول فرما"پھر اس کی قربانی کی۔(صحیح مسلم، جلد3،صفحہ 1557،حدیث نمبر1967، دار احیاء التراث،بیروت)

   مذکورہ حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے” ومن أمة محمد. قال الطيبي: المراد المشاركة في الثواب مع الأمة لأن الغنم الواحد لا يكفي عن اثنين فصاعدا اهـ. “ترجمہ:امتِ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کی طرف سے "علامہ طیبی نے فرمایا:یہاں امت کو ثواب میں شریک کرنا مراد ہےکیونکہ ایک بکری دو یا دو سے زائد افراد کی طرف سے کفایت نہیں کرتی۔(مرقاۃ المفاتیح،باب فی الاضحیۃ،ج 3،ص 1079، دار الفكر، بيروت)

   اس حدیث پاک کی شرح میں  مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃالرحمٰن (المتوفیٰ:1971ء) ارشاد فرماتے ہیں:” اس سےمعلوم ہوا کہ اپنے فرائض و واجبات کا ثواب دوسروں  کو بخش سکتے ہیں ،اس میں  کمی نہیں  آسکتی۔یہ حدیث کھانا سامنے رکھ کر اِیصالِ ثواب کرنے کی  قوی دلیل ہے کہ بکری سامنے ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ثواب اپنی آل اور امت کو بخش رہے ہیں ۔“(مرأۃالمناجیح جلد2،صفحہ360،قادری پبلشرز،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم