Mahine Baad Aqiqa Karne Ki Surat Mein Bhi Kya Bache Ke Baal Mondna Zaroori Hai ?

مہینے بعد عقیقہ کرنے کی صورت میں بھی کیا بچے کے سر کے بال مونڈنا ضروری ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12576

تاریخ اجراء: 08جمادی الاولیٰ1444 ھ/03دسمبر2022  

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر  بچے کی ولادت کے ایک مہینے  بعد بچے کا عقیقہ کریں تو اس صورت میں بھی جانور ذبح ہونے کے وقت  بچے کا سر مونڈوانا ضروری ہوگا،  جبکہ پہلے بچے کا سر منڈواچکے ہوں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں!    پوچھی گئی صورت میں عقیقہ کرتے وقت دوبارہ سے بچے کا سر منڈوانا   ضروری نہیں ۔

   اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں "أميطوا عنه الأذى" کے الفاظ آئے ہیں اور شارحینِ حدیث کی وضاحت کے مطابق جن گندگیوں کو بچے سے دور کرنے کا کہا گیا ہے ان میں وہ بال بھی شامل ہیں جو  پیدائش کے وقت بچے کے سر پر موجود ہوتے ہیں، کیونکہ یہ بال آلائش میں لتھڑے ہوتے ہیں اگرچہ پیدائش کے بعد بچے کو غسل دینے کی صورت میں یہ بال دھل جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان بالوں کا سر سے دورکردینا اچھا عمل  ہے۔ اب جبکہ   پوچھی گئی صورت میں بچے کے وہ پیدائشی بال مونڈے جاچکے ہیں، تو  عقیقہ کرتے وقت دوبارہ سے بچے کا سر منڈوانا  شرعی فضلیت کا تقاضا نہیں ہے  ۔

    بخاری،ابوداؤد،ترمذی ، ابنِ ماجہ ودیگر کتبِ احادیث میں ہے: ”والنظم للاول“ سلمان بن عامر الضبي قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول "مع الغلام عقيقة فأهريقوا عنه دما وأميطوا عنه الأذى"ترجمہ : ”حضرتِ سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲصلی اللہ تعالی  علیہ وسلم کوفرماتے سنا کہ''لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے تو اس کی طرف سے خون بہاؤ (یعنی جانور ذبح کرو)اور اس سے اذیت کو دور کرو(یعنی اس کا سر مونڈا دو)''۔“(صحیح البخاری، کتاب العقیقۃ، باب إماطۃ الأذی عن الصبی في العقیقۃ، ج05،ص2082،دار ابن کثیر، بیروت)

   مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت شرح المشکاۃ للطیبی، فیض القدیر، مرقاۃ المفاتیح، نخب الافکار وغیرہ میں مذکور ہے: ”و النظم للاول“قوله: (مع الغلام عقيقة): أي مع ولادته عقيقة مسنونة وهي شاة تذبح عن المولود اليوم السابع من ولادته، سميت بذلك؛ لأنها تذبح حين يحلق عقيقته، وهو الشعر الذي يكون على المولود حين يولد، من العق وهو القطع؛ لأنه يحلق ولا يترك، وأراد بإماطة الأذى عنه حلق شعره. وقيل: تطهيره عن الأوساخ والأضار التي تلطخ به عند الولادة. وقيل: الختان۔“ترجمہ: ”یعنی بچے کی ولادت کے وقت عقیقہ کرنا مسنون ہے اور وہ ایک بکری ہے جسے ولادت کے ساتویں دن بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے۔ اسے عقیقہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ جانور اس وقت ذبح کیا جاتا ہے کہ جب بچے کے سر پر موجود پیدائشی بالوں کو مونڈا جاتا ہے(لغت میں کاٹے گئے بالوں کو بھی عقیقہ کہتے ہیں )کہ یہ عق سے ماخوذ ہے جس  کا معنی قطع کرنا ہے کیونکہ ان بالوں کو صاف کیا جاتا ہے انہیں چھوڑا نہیں جاتا۔ یہاں "إماطة الأذى"سے مراد بچے کے بالوں کو صاف کرنا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ گندگی دور کرنے سے مراد ولادت کے وقت بچہ جن گندگیوں سے لتھڑا ہوا ہوتا ہے انہیں دور کرنا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں ختنہ مراد ہے۔ “ (شرح الطيبي على مشكاة المصابيح، باب العقیقۃ، ج 09، ص 2831، مطبوعہ ریاض)

   عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:”حديث سلمان أميطوا عنه الأذى ومن جملة الأذى شعر رأسه الملوث من البطن وبعمومه يتناول الذكر والأنثى“یعنی حضرتِ سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں "أميطوا عنه الأذى"کے الفاظ ہیں  اور جملہ گندگیوں میں سر کے وہ بال بھی شامل  ہیں کہ جو پیدائش کے وقت موجود ہوتے ہیں اور گندگی سے ملوث ہوتے ہیں ، نیز یہاں اس عموم میں  بچہ  اور بچی  دونوں ہی اس حکم میں شامل ہیں۔

(عمدة القاري شرح صحيح البخاری، باب إماطۃ الأذی عن الصبی في العقیقۃ،  ج21،ص88، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   مرآۃ المناجیح میں ہے:” گندگی سے مراد سر کے بال ہیں کیونکہ وہ بال ماں کے پیٹ سے ساتھ آتے ہیں،آلائش میں لتھڑے ہوتے ہیں اگرچہ دائی غسل دیتے وقت انہیں دھو دیتی ہے مگر ان کا سر سے دورکردینا اچھا ہے،بعض شارحین نے فرمایا کہ گندگی دور کردینے سے مراد بچہ کا ختنہ کردینا ہے۔“(مرآۃ المناجیح، ج 06، ص 03، ضیاء القرآن پبلی کیشنز،  لاہور)

   خلیفہ اعلیٰ حضرت   ملک العلماء شاہ محمد ظفر الدین قادری علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ”یہ بھی ضروری ہے کہ وقتِ عقیقہ کے سر کے بال اتارے جاتے ہیں یا اگر جوانی میں عقیقہ کیا جائے تو بھی لڑکا خواہ لڑکی کے سر کے بال اتارے جائیں گے؟۔“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”عقیقہ کے ساتھ وہ بال جدا کیے جاتے ہیں جو پیٹ سے پیدا ہوئے اور جب وہ ایک بار جدا ہوگئے تو اب عقیقہ کے ساتھ بال تراشنا کوئی ضروری نہیں۔ احادیث میں "و أميطوا عنه الأذى" فرمایا ہے یعنی پیٹ سے جو بال لے کر پیدا ہوا، وہ دور کردیئے جاتے ہیں۔ اس واسطے اس کو عقیقہ کہتے ہیں کہ اصل عقیقہ کے معنی وہ بال ہیں جو لڑکے کے سر پر وقتِ پیدائش کے ہوتا ہے۔(فتاوٰی ملک العلماء، ص 276-274، بریلی شریف)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم