مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر: Aqs-1861
تاریخ اجراء: 05ذوالحجۃ الحرام1441ھ/27جولائی2020ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک
پوسٹ میں یہ حدیثِ پاک لکھی ہے : ”حضرت سیِّدُنا عطا
بن یسار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا
ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا : رسول
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں
آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں ، تو انہوں
نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے زمانے میں آدمی
اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی
کرتا تھا ، تو اس کے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے ، پھر لوگ فخر و مباحات
کرنے لگے (ایک دوسرے پر برتری اور دکھاوے کے لیے ایک سے زیادہ
قربانیاں کرنے لگے ) ، تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے
ہو ۔“(سنن ابنِ ماجہ ، حدیث 3147)
اس کے بعد نوٹ لکھا ہے کہ اسلام میں
ایک خاندان کا مطلب ایک شادی شدہ مرد و عورت اور اس کی اولاد
ہے ، اب اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ شادی شدہ لوگ
ہوں، تو وہ سب الگ خاندان شمار ہوں گے اور ہر خاندان اپنی الگ اور صرف ایک
قربانی یا صرف ایک حصہ قربانی کرے گا ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایک
سے زیادہ افراد پر قربانی واجب ہونے کی صورت میں ان سب کی
طرف سے صرف ایک بکری یا صرف ایک حصے کی قربانی
کرنا درست نہیں ، بلکہ ان سب پر لازم ہو گا کہ الگ الگ بکری یا بڑے
جانور میں الگ الگ حصے کی قربانی کریں ، کیونکہ بکرے
یا بکری کی قربانی میں ایک سے زیادہ حصے
نہیں ہو سکتے ، لہٰذا ایک قربانی کسی ایک طے شدہ
فردہی کی طرف سے کی جا سکتی ہے ، اسی طرح بڑے جانور
میں سے ایک حصے کی قربانی بھی صرف ایک شخص ہی
کی طرف سے کی جا سکتی ہے ، ایک سے زیادہ افراد کی
طرف سے نہیں کی جا سکتی ۔ لہٰذا ایک گھر یا
ایک خاندان کے مختلف افراد پر واجب ہونے کے باوجود اگر ان سب کی طرف سے صرف ایک قربانی
یا صرف ایک حصے کی قربانی کی جائے گی ، تو کسی
کی بھی قربانی ادا نہیں ہو گی ۔
رہا یہ سوال کہ پھر اس حدیثِ پاک سے کیا مراد ہے ؟ تو اس کا
جواب یہ ہے کہ یہ حدیثِ پاک یا تو منسوخ ہے یا پھر اس
سے واجب قربانی نہیں ، نفل قربانی مراد ہے اور حدیث کا مطلب
یہ ہے کہ وہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کہ جن پر مالکِ نصاب
نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب نہیں ہوتی تھی ، وہ خاص
اپنی طرف سے نفلی قربانی کرتے ہوئے ایک بکری ذبح کرتے
تھے اور اس میں سے خود بھی کھاتے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتے
تھے ۔
سوال میں
مذکور حدیثِ پاک سے نفل قربانی مراد ہے ۔ چنانچہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث
کے تحت فرماتے ہیں : ”کان الرجل
یکون محتاجا فیذبح الشاۃ الواحدۃ یُضحّی بھا عن
نفسہ فیاکل و یطعم اھلہ ، فاما شاۃ واحدۃ تذبح عن اثنین
او ثلثۃ اضحیۃ فھذہ لا یجزئ و لا یجوز شاۃ الا
عن واحد و ھو قول ابی حنیفۃ و العامۃ من فقھائنا “ ترجمہ : ایک شخص مالکِ نصاب نہیں
ہوتا تھا ، تو وہ ایک بکری ذبح کرتا جس کی قربانی وہ اپنی
طرف سے کرتا تھا ، تو وہ خود بھی کھاتا اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتا
تھا۔ بہرحال ایک بکری جو واجب قربانی کے طور پر دو یا
تین افراد کی طرف سے ذبح کی جائے تو یہ کافی نہیں
ہے ، ایک بکری ایک ہی شخص کی طرف سے جائز ہے اور یہ
امامِ اعظم اور ہمارے جمہور فقہا رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے ۔(المؤطا للامام محمد ، صفحہ282 ، مطبوعہ کراچی)
ایک
قربانی سب گھر والوں کی طرف سے جائز نہیں ہے ۔ چنانچہ سوال
میں مذکور حدیث کے متعلق شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں : ”ایک حدیث یہ بھی مروی ہے کہ ایک
بکری سب گھر والوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے، مگر اس کا حکم
بھی وہی ہے جو بیان کیا گیا کہ یہ بھی منسوخ
ہے ۔ “(اشعۃ اللمعات (مترجم) ، جلد2 ، صفحہ
693
، مطبوعہ فرید بک اسٹال ، لاھور)
ایک
بکری کی قربانی ایک شخص ہی کی طرف سے ہو سکتی
ہے ۔ چنانچہ مرقاۃ شرحِ مشکوٰۃ میں ہے : ”الغنم الواحد
لا یکفی عن اثنین فصاعدا “ ترجمہ : دو اور دو سے زیادہ افراد کی طرف سے ایک بکری
کفایت نہیں کرتی ۔(مرقاۃ
المفاتیح ، جلد3 ، صفحہ561 ، مطبوعہ ملتان)
بنایہ
شرحِ ہدایہ میں ہے : ”و اعلم
ان الشاۃ لا تجزئ الا عن واحد و قد روی
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ انہ قال الشاۃ عن واحد ، ملخصا “ ترجمہ : اور جان لو کہ ایک بکری
صرف ایک شخص ہی کی طرف سے کافی ہو گی اور حضرت ابنِ
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ایک بکری ایک
ہی کی طرف سے (جائز) ہے ۔(البنایۃ مع الھدایۃ ، جلد14، صفحہ353 ، مطبوعہ ملتان)
بڑے جانور
میں کل سات حصے کیے جا سکتے ہیں ، جن میں سے ہر حصہ ایک
شخص ہی کی طرف سے قربان کیا جائے گا ، اگر ایک سے زیادہ
افراد کی طرف سے قربان کیا جائے ، تو ان کی شرکت ایک سے کم
حصے میں ہو گی جو کہ ناجائز ہے ، لہٰذا کسی کی بھی
قربانی جائز نہیں ہو گی ۔ چنانچہ تنویر الابصار و درِ
مختار میں ہے : ”(تجب شاۃ او سبع
بدنۃ) ھی الابل و البقر و لو لاحدھم
اقل من سبع لم یجز عن واحد ، ملخصا “ ترجمہ : ایک بکری یا بدنہ
یعنی اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے اور اگر شرکا میں
سے کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہو ، تو قربانی کسی ایک
کی طرف سے بھی جائز نہیں ہو گی ۔(تنویر الابصار و الدر المختار ، جلد9، صفحہ521۔525 ، مطبوعہ ملتان)
خلاصۃ
الفتاوی میں ہے : ”لو کانت
الشرکاء فی البدنۃ او البقرہ ثمانیۃ لم یجزھم ، و لو
کانوا اقل من ثمانیۃ الا ان نصیب واحد منھم اقل من السبع لا یجوز
ایضا “ ترجمہ :
اگر اونٹ یا گائے میں آٹھ لوگ شریک ہوں ، تو یہ جائز نہیں
ہو گا ، اور اگر وہ آٹھ سے کم ہوں لیکن ان میں سے کسی ایک
کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہو ، تو بھی جائز نہیں ہو گا ۔(خلاصۃ الفتاوی، جلد4 ، صفحہ315، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ”ایک قربانی
نہ سب کی طرف سے ہو سکتی ہے ، نہ سوا مالکِ نصاب کے کسی اور پر واجب
ہے ، اگر اس کی بالغ اولاد میں کوئی خود صاحبِ نصاب ہو ، تو وہ اپنی
قربانی جدا کرے ۔ “(فتاوٰی
رضویہ ، جلد20 ، صفحہ369 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟