Kya Bare Janwar (Cow, Camel) Mein Bache Ka Aqeeqah Ho Sakta Hai?

کیا بڑے جانور (گائے، اونٹ) میں بچے کا عقیقہ ہوسکتا ہے ؟

مجیب:ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Grw-221

تاریخ اجراء:28ربیع الآخر 1443ھ/04دسمبر 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ بڑے جانور مثلا: گائے، اونٹ سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ زید ایک بد مذہب شخص ہے جو کہ یہ کہتا ہے کہ بڑے جانور سے عقیقہ نہیں ہو سکتا،کیونکہ کسی ضعیف حدیث سے بھی بڑےجانور کو  عقیقے کے طور پر کرنا ثابت نہیں اور نہ ہی کسی صحابی نے بڑےجانور  کو عقیقے میں ذبح کیا ہے  ۔برائے مہربانی اس پر کوئی حدیث ہے تو بیان فرما دیجئے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گائے ، اونٹ  وغیر ہ قابل قربانی جانور عقیقے میں ذبح کیا جا سکتا ہے  اور  اس میں بھی قربانی کی طرح عقیقے کے سات حصے ہو سکتے ہیں ۔  زید  کا یہ کہنا کہ بڑاجانور  عقیقے میں کرنا کسی ضعیف حدیث و صحابی کے عمل سے ثابت نہیں ، اس کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ،یہاں حدیث اور صحابی کا عمل پیش کیا جا رہا ہے ،زید کو چاہیے کہ اس سے  اپنی جہالت دور کر کے علم میں اضافہ کرلےتاکہ  آئندہ اپنی جہالت سے غلط مسئلہ بتانے کے گناہ  اور حدیث  کے انکار کے گناہ کا مرتکب نہ ہو  ۔

   بڑے جانور سے عقیقہ درست ہونے پر حدیث :سند حسن کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اونٹ یا گائے یا بکری سے عقیقہ کرے ۔اس حدیث کو بڑے بڑے ائمہ(مثلاابوبکر احمد بن عبد الرحمن شیرازی ،ابو نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد اصفہانی اور ابو نصراحمد بن علی جصاص )کے استاذابو محمد عبد اللہ بن محمد بن جعفر بن حیان اصفہانی المعروف ابو الشیخ اصفہانی متوفی 369ھ نے اپنی کتاب ’’ کتاب الضحایا والعقیقہ ‘‘میں سند حسن کے ساتھ روایت  کیا ہےاور اس بات کو امام نور الدین ابو الحسن علی بن ابوبکر ہیثمی اور امام شہاب الدین احمد بن علی ،ابن حجر عسقلانی کے استاذزین الدین ابو الفضل  عبد الرحیم بن حسین عراقی متوفی 806ھ نے اپنی کتاب’’ طرح التثریب فی شرح التقریب‘‘ میں ذکر کیا ہے ،چنانچہ آپ فرماتے ہیں :’’روى ۔۔۔أبو الشيخ بن حيان في الأضاحي بسند حسن عن أنس قال قال رسول اللہ  صلى اللہ عليه وسلم  : من ولد له غلام فليعق عنه من الإبل والبقر والغنم‘‘ترجمہ:ابو الشیخ   بن حیان نے اضاحی میں سند حسن کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کے ہاں بچہ پیدا ہو، تو وہ اس کا عقیقہ اونٹ یا گائے یا بکری سے کرے ۔ (طرح التثریب فی شرح التقریب ،جلد5،صفحہ209،دار إحياء التراث العربي)

   بڑے جانور سے عقیقہ کرنے پر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل :ابو بكر عبد الله بن محمدالمعروف  ابن ابی شيبہ متوفى235ھ اپنی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں ،ابو بكر عبد الله بن محمد بغدادی قرشی المعروف ابن ابی الدنيا متوفى281ھ اپنی کتاب النفقۃ علی العیال میں اورابو القاسم سليمان بن احمدشامی،طبرانی متوفى360ھ اپنی کتاب المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں۔والنظم ھذا للطبرانی:’’حدثنا أبو مسلم، حد ثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حد ثنا قتادة:’’ أن أنس بن مالك كان يعق عن بنيه الجزور‘‘ترجمہ:حضرت انس بن مالک اپنے بچوں کی طرف سے اونٹ کے ساتھ عقیقہ کیا کرتے تھے ۔ (المعجم الکبیر ،جلد1،صفحہ244،مطبوعہ قاھرہ)

   امام نور الدين ابو الحسن علی بن ابو بكرہيثمی متوفى807ھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل مبارک کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’رواه الطبراني في الكبير، ورجاله رجال الصحيح‘‘یعنی اسے امام طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں ۔( مجمع الزوائد ،جلد4،صفحہ59،مکتبۃ القدسی ،قاھرہ )

   بڑے جانور سے عقیقے  کا درست ہونا دین کا ایسا واضح مسئلہ ہے ، جس میں  احناف،شوافع اورحنابلہ کا اتفاق ہے اور یہی مالکیہ کا  ارجح قول ہے،موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:’’يجزئ في العقيقة الجنس الذي يجزئ في الأضحية، وهو الأنعام من إبل وبقر وغنم، ولا يجزئ غيرها، وهذا متفق عليه بين الحنفية، والشافعية والحنابلة، وهو أرجح القولين عند المالكية ‘‘ترجمہ:جس جنس کے جانور قربانی میں کافی  ہیں وہ عقیقے میں بھی کفایت کرجائیں گے اور وہ چوپائے ہیں، یعنی اونٹ،گائےاور بکری،اس کے علاوہ کوئی جانور کافی نہیں ہے۔ یہ احناف ،شافعیہ اور حنابلہ کا متفق علیہ مذہب ہے اور مالکیہ کے نزدیک دوقولوں میں سے ارجح یہی ہے ۔ (موسوعہ فقھیہ کویتیہ ،جلد30،صفحہ279،دارالصفوہ ،مصر)

   تنبیہ :بعض لوگ بڑے جانور سے عقیقہ کی ممانعت پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر کےہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے پوچھا گیا کہ کیا اس   کا عقیقہ اونٹ سے کرلیں؟ تو آپ نے فرمایا :معاذ اللہ (اللہ کی پناہ )لیکن اسی سے کریں جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :دوہم مثل بکریاں ۔روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :’’حدثنا عبد الجبار بن ورد، قال: سمعت ابن أبي مليكة يقول: نفس لعبد الرحمن بن أبي بكر غلام فقيل لعائشة رضي اللہ عنها: يا أم المؤمنين عقي عليه , أو قال: عنه جزورا , فقالت: معاذ اللہ ولكن ما قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: " شاتان مكافأتان ۔‘‘(سنن کبری للبیھقی ،جلد9،صفحہ507،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

   اس روایت کو ذکر کرکے بعض لوگ کہتے ہیں کہ دیکھیں حضرت عائشہ نے اونٹ کے عقیقہ  پر معاذ اللہ کے الفاظ کہے ہیں، جس کا یہ مطلب ہے کہ یہ جائز نہیں ہے ۔

   اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو معاذ اللہ کہا ہے، وہ محض مستحب وافضل کی نفی کرنے کے لیے کہا ہے ،اونٹ کے عقیقہ کے ناجائز وناکافی ہونے کی وجہ سے نہیں کہا ،جیساکہ ابو عبد الله حسين بن حسن جرجانی شافعی متوفى403 ھ نے اس حدیث کا یہی معنی ومحمل بیان کیا ہے، چنانچہ آپ اونٹ سے عقیقہ کے مسئلہ کو ذکر کرتے ہوئے حدیث عائشہ جس میں معاذ اللہ کے الفاظ ہیں اور اوپر ہماری مستدل روایت کی مثل ایک اور روایت کہ جس میں گائے اوراونٹ سے عقیقہ کرنے کا حکم ہے، دونوں کو ذکر کرنے کے بعددونوں کا محمل بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:’’ليس فيه استحباب البدن بل الغنم. وإنما فيه إنها تجزي، ولسنا ننكر ذلك. والمعنى في أن الإبل لا تستحب من هذا النسك على الغنم‘‘ترجمہ:اس میں بکری کی بجائے اونٹ کے مستحب ہونے کی دلیل نہیں ،صرف اتنی بات ہے کہ اونٹ عقیقہ میں کفایت کرجائے گا اور ہم اس کے منکر نہیں ہیں اور معنی یہ ہے کہ اس (یعنی عقیقہ والی )قربانی میں اونٹ بکر ی کی نسبت مستحب نہیں ہے ۔(المنهاج في شعب الإيمان،جلد3،صفحہ285،دار الفكر)

   بلکہ اس کی صراحت تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اپنے فرمان  میں بھی موجود ہے کہ اسی واقعہ سے متعلق ایک دوسری روایت جو سنن کبری کی روایت سے زیادہ تفصیلی ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے،اس میں اونٹ سے عقیقہ کے سوال کے جواب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے معاذاللہ کہنا نہیں، بلکہ صرف یہ کہنا منقول ہے کہ’’ نہیں بلکہ افضل ،سنت لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ہیں ۔‘‘ چنانچہ امام حاکم اپنی مستدرک میں سند صحیح کے ساتھ روایت  کرتے ہیں (علامہ ذہبی نے بھی اس کی صحت کو برقرار رکھا ہے ۔):عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزورا، فقالت عائشة رضي اللہ عنها: ’’لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة ‘‘۔۔۔ هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ۔التعليق  من تلخيص الذهبي۔ صحيح‘‘ ترجمہ:ام کرز اور ابوکرز دونوں سے روایت ہے ،دونوں کہتے ہیں کہ آل عبد الرحمن بن ابوبکر میں سے ایک عورت نے یہ نذر مانی  کہ اگر عبد الرحمن کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو ہم ایک اونٹ نحر کریں گے ۔تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ نہیں بلکہ سنت ،افضل لڑکے کی طرف سے ہم مثل دوبکریاں ہیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۔ (مستدرک للحاکم ،جلد4،صفحہ266،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم