مجیب:مفتی فضیل
رضا عطاری
فتوی نمبر:Fmd-0502
تاریخ اجراء:25ذوالقعدۃ1439ھ/08اگست2018ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و
مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ قربانی واجب ہونے کانصاب کیاہے
یعنی کتنامال ملکیت
میں ہو،توقربانی واجب ہوجاتی
ہے؟ نیزیہ قربانی فقط مردوں پرواجب ہےیا
مردوعورت دونوں پر؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس شخص کی ملکیت میں دوسودرہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)یابیس دینار(ساڑھے سات تولہ سونا)ہوں یاسوناچاندی نصاب سےکم ہو ، لیکن جس
قدرہے ، اُس کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو، یوں ہی حاجت اصلیہ(یعنی وہ چیزیں جن کی انسان
کوحاجت رہتی ہے،جیسے رہائش گاہ،خانہ داری کےوہ سامان جن
کی حاجت ہو،سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ
زندگی)سے زائد اگرکوئی ایسی چیزہوجس
کی قیمت(فی زمانہ)ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہو ، تووہ نصاب کامالک ہےاوراُس پر قربانی
واجب ہے۔
یاد رہے کہ
عورتوں پربھی شرائط پائے جانے کی صورت میں قربانی واجب
ہوتی ہے، جس طرح مردوں پرواجب ہوتی ہے۔
قربانی واجب ہونے کانصاب بیان کرتے ہوئے”بدائع
الصنائع“میں علامہ ابوبکربن مسعود کاسانی حنفی(متوفی587ھ)فرماتے ہیں:” فلا بد من اعتبار
الغنى وهو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوى
مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر “ترجمہ:(قربانی میں)مالداری
کااعتبارہوناضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں
دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)یابیس دینار(ساڑھے سات تولہ سونا)ہوں یارہائش،خانہ داری کے سامان،
کپڑے،خادم،گھوڑا، ہتھیاراوروہ اشیاء جن کے بغیرگزارہ نہ ہو،ان کے
علاوہ کوئی ایسی چیزہو ، جواس(دوسودرہم یابیس دینار)کی قیمت کوپہنچتی ہواوریہ ہی
صدقہ فطرکانصاب ہے۔(بدائع الصنائع،کتاب التضحیہ،ج4،ص196،مطبوعہ کوئٹہ)
صدالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی
علیہ رحمۃاللہ القوی(متوفی1367ھ)فرماتے ہیں:”جو شخص دو سو درہم یا بیس
دینار کا مالک ہو یا حاجت کےسوا کسی ایسی چیز
کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو ،وہ غنی ہے اوس پر
قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان
جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ، ان کے
سوا جو چیزیں ہوں ، وہ حاجت سے زائد ہیں۔“(بھارِشریعت،ج3،ص333،مکتبۃالمدینہ،کراچی)
امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ
رحمۃالرحمٰن(متوفی1340ھ)فرماتے ہیں: ”قربانی واجب ہونے کے لیے
صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصل
حاجتوں کے علاوہ ۵۶ روپیہ(اعلیٰ حضرت علیہ
الرحمۃ کے دور میں رائج الوقت چاندی کے سکے ) کے مال کا مالک
ہو، چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت۔
کاشتکار کے ہل بَیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ،ان
کا شمار نہ ہو۔۔۔اور جس پر قربانی ہے اور اس وقت نقد اس
کے پاس نہیں ، وہ چاہے قرض لے کر کرے یااپنا کچھ مال بیچے۔“(فتاوی رضویہ،ج20،ص370،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
تبیین الحقائق میں علامہ
زیلعی حنفی فرماتے ہیں:”ويضم الذهب إلى
الفضة بالقيمة فيكمل به النصاب لأن الكل جنس واحد“ترجمہ:سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت کے اعتبار سے
ملاکر نصاب مکمل کیاجائے گا ، کیونکہ یہ آپس میں ہم جنس
ہیں۔(تبیین الحقائق،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃالمال،ج2،ص80،مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں
ہے:”قابلِ ضم وہی ہے، جو
خود نصاب نہیں ، پھر اگر یہ قابلیت ایک ہی طرف ہے ،
جب تو طریقہ ضم آپ ہی متعین ہوگا ۔ کما سبق(جیسا کہ
پیچھے گزرایعنی کہ اس غیر نصاب کو اُس نصاب سے
تقویم کرکے ملا دیں)اور دونوں جانب ہے ، تو البتّہ یہ امر غور
طلب ہوگا کہ اب ان میں کس کو کس سے تقویم کریں کہ دونوں
صلاحیتِ ضم ر کھتے ہیں، اس میں کثرت و قلّت کی وجہ سے
ترجیح نہ ہوگی کہ خواہی نخواہی قلیل ہی کو
کثیر سے ضم کریں کثیر کو نہ کر یں کہ جب نصابیت
نہیں تو قلیل و کثیر دونوں احتیاجِ تکمیل میں
یکساں۔۔۔۔۔بلکہ حکم یہ ہوگا جو تقویم فقیروں کے
لیے اَنفع ہو ، ا سے اختیار کریں، اگر سونے کو چاندی کرنے
میں فقراء کا نفع زیادہ ہے، تو وہی طریقہ برتیں اور
چاندی کو سونا ٹھہراتے ہیں ، تو یہی ٹھہرائیں اور
دونوں صورتیں نفع میں یکساں ، تو مزکی(زکوٰۃدینے والے) کو اختیار۔ “(فتاوی
رضویہ،ج10،ص116،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
عورتوں پربھی قربانی واجب ہوتی
ہے۔جیساکہ درمختارمیں علامہ علاؤالدین حصکفی
علیہ رحمۃاللہ القوی ارشادفرماتے ہیں:”وشرائطها: الإسلام
والإقامة واليسارالذی يتعلق به )وجوب (صدقة الفطرلا
الذكورة فتجب على الأنثى)“یعنی قربانی واجب ہونے کی شرائط
یہ ہیں:مسلمان ہونا،مقیم ہونا،ایسی مالداری ،
جس سے صدقہ فطرواجب ہوتاہو۔ مرد ہونا شرط نہیں، لہذا عورت
پربھی واجب ہے۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الاضحیہ،ج09،ص520،مطبوعہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی
علیہ رحمۃاللہ القوی نے قربانی واجب ہونے کی شرائط
بیان کرتے ہوئے یہ مسئلہ ارشادفرمایا:”مرد ہونا اس کے لیے
(قربانی واجب ہونے کے لیے)شرط نہیں۔ عورتوں پر واجب
ہوتی ہے ، جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے ۔ “(بھارِشریعت،ج03،ص332،مکتبۃالمدینہ،کراچی)
نوٹ: نصاب کی مالیت 29 مئی 2024 کو تقریباً
ایک لاکھ سینتالیس ہزار (147000) پاکستانی روپے بنتی
ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟