مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Hab-0141
تاریخ اجراء:08ذو الحجۃ الحرام1444ھ/27جون2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں شوہر کے ساتھ ان کے گھر پر رہتی ہوں ،مجھے میرے والد صاحب کی طرف سے اس سال گھر وراثت میں ملا ہے، جو میں نے کرایہ پر دیا ہوا ہے، کیا اس گھر کی وجہ سے مجھ پر قربانی واجب ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر اس
گھر کی قیمت تنہا، نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ
چاندی کی مقدار کی قیمت) کے برابر یا اس سے زائد
ہے، جیسا کہ عموماً گھروں کی
قیمت نصاب ،بلکہ اس سے زائد ہی ہوتی
ہے یا تنہا
اس کی قیمت نصاب کے برابر تو نہیں،لیکن
آپ کے پاس اس کے علاوہ
حاجت اصلیہ سے زائد مال موجود ہے
اور گھر کی قیمت اس مال سے مل کر نصاب کی مقدار بنتی ہو ،تو آپ پر قربانی واجب ہے ورنہ نہیں۔
امام قاضی خان رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:”واذا کان لہ دار لا یسکنھا ویؤاجرھا أو لا یؤاجرھا
یعتبر قیمتھا
فی الغنی، وکذا اذا سکنھا
وفضل عن سکناہ شیء یعتبر
فیہ قیمۃ الفاضل فی النصاب ویتعلق
بھذا النصاب أحکام وجوب صدقۃ الفطر والأضحیۃ
“ ترجمہ:اگر کسی کے پاس گھر ہو جس
میں اس کی رہائش نہ ہو ،اس نے وہ گھر کرایہ پر دیا ہو یا نہ دیا ہو، مالداری میں اس گھر کی قیمت کا
اعتبار ہوگا، اسی طرح اگر وہ اس گھر میں رہائش پذیر ہو اور اس کے گھر
(کے بڑے ہونے کی وجہ سےاس )میں سے کچھ حصہ رہائش کی ضرورت سے زائد ہو،
تو اس زائد حصہ کی قیمت نصاب میں شامل کی جائے گی،
اور اس نصاب سے صدقہ فطر اور قربانی واجب ہونے کے
احکام متعلق ہوں گے۔(فتاوی قاضی خان،جلد1،صفحہ200،دار
الکتب العلمیہ)
حتیٰ کہ عورت
اگر اپنے مکان میں رہتی
ہو اور اس کا شوہر اسے رہائش دینے
پر قادر ہو، تو رہائش کے باوجود
اس مکان کی وجہ سے وہ
عورت قربانی کے معاملہ میں مالدار شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین
شامی رحمہ اللہ
فرماتےہیں:”والمرأۃ موسرۃ ۔۔۔بدار تسکنھا
مع الزوج ان قدر علی الاسکان “ ترجمہ:اور عورت مالدار ہو جاتی ہے ۔۔۔ (اپنے) اس گھر کی وجہ سے (بھی) جس میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہو، جبکہ شوہر اسے رہائش دینے پر قادرہو۔ملتقطاً (رد المحتار مع
الدرالمختار،جلد9،صفحہ520،مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہل سنت رحمہ
اللہ سے سوال ہوا:”اگر
زید کے پاس مکان سکونت
کے علاوہ دو ایک اور ہوں ،تو اس پر
قربانی واجب ہے یا نہیں؟ “ تو آپ
رحمہ اللہ نے جواب
ارشاد فرمایا:”واجب ہے ،جبکہ
وہ مکان تنہا یا اس کے
اور مال سے کہ حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو، مل کر چھپن
روپے کی قیمت (ساڑھے
باون تولہ چاندی
کی مقدار کی اس زمانہ کی قیمت)
کو پہنچیں، اگر چہ مکانوں کو کرایہ پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو، بلکہ مکان سکونت اتنابڑ
اہو کہ اس کا ایک اس کے جاڑے گرمی کی
سکونت کے لیے کافی
ہو اور دوسرا حصہ حاجت سے زائد ہو اور اس کی قیمت تنہا
یا اسی کے مال سے مل کر نصاب تک پہنچے جب
بھی قربانی واجب ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد20 صفحہ361،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟