مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-962
تاریخ اجراء:29ذیقعدۃالحرام1444 ھ/19جون2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ایسا
کرنا، جائز ہے، مگر اس بات کا خیال
رہے کہ جب کسی شہر
میں مقیم شخص اپنی
قربانی کسی گاؤں میں کروائے تو دونوں جگہ یعنی اس
گاؤں اور مؤکل(قربانی کروانے والے) کے شہر میں بھی قربانی
کا وقت ہونا ضروری ہے۔جیسے: اگر مؤکل کی طرف سے گاؤں
میں دس ذوالحجہ کو صبحِ صادق یعنی فجر کا وقت شروع ہوتے
ہی قربانی کی جا
رہی ہو تو ضروری ہے کہ مؤکل کے
شہر میں بھی فجر کا وقت شروع
ہو چکا ہو کیونکہ اس سے پہلے مؤکل
پر قربانی واجب ہی نہیں ہوتی اور کسی عبادت کے واجب
ہونے سے پہلے اس کی ادائیگی سے برئ الذمہ ہو جانا ممکن
نہیں، لہٰذا جہاں اُس گاؤں اور مؤکل کے شہر میں اتنا زیادہ فاصلہ ہو کہ گاؤں میں فجر کا وقت پہلے شروع ہو رہا
ہو اور شہر میں دیر سے شروع ہو گا،تو گاؤں میں شہری
کی قربانی کرنے میں اتنا انتظار کرنا ہو گا کہ شہر میں
بھی فجر کا وقت شروع ہو جائے۔
اور اگر شہر میں جانور قربان کروائے، تو جس کی
طرف سے قربانی کی جا رہی ہو وہ گاؤں میں ہو خواہ شہر میں،دونوں صورتوں
میں ضروری ہے کہ جہاں قربانی کی جا رہی ہے وہاں
عید کی نماز پڑھ لی
گئی ہو، نیز مستحب یہ ہے کہ گاؤں میں سورج طلوع ہونے سے پہلے
اور شہر میں نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد خطبہ مکمل
ہو جانے سے پہلے قربانی نہ کی جائے۔
وقت سے پہلے قربانی واجب نہ
ہونے سے متعلق بدائع الصنائع میں
ہے:’’و أما وقت الوجوب
فأیام النحر، فلا تجب قبل دخول الوقت لأن الواجبات المؤقتۃ لا تجب قبل
أوقاتھا کالصلاۃ و الصوم و نحوھما، و أیام النحر ثلاثۃ،
یوم الأضحیٰ و ھو یوم العاشر من ذی الحجۃ، و
الحادی عشر، و الثانی عشر، و ذلک بعد طلوع الفجر من الیوم الأول
إلیٰ غروب الشمس من الثانی عشر۔‘‘ یعنی رہا قربانی
واجب ہونے کا وقت تو وہ ایامِ نحر ہیں، لہٰذا وقت داخل ہونے سے
پہلے قربانی واجب نہیں ہوتی کیونکہ واجباتِ مؤقَّتہ (یعنی
ایسے واجبات جن کا وقت مقرر ہے وہ) اپنے اوقات سے پہلے واجب نہیں ہوتے
جیسے نماز، روزہ اور ان دونوں کی مثل واجبات، اور ایامِ نحر تین ہیں:عید
الاضحیٰ کا دن اور وہ ذو الحجہ کا دسواں دن ہے اور گیارہ اور
بارہ ذو الحجہ، اور وہ (قربانی کے )پہلے دن فجر طلوع ہونے کے بعد سے لے کر
بارہویں دن سورج ڈوبنے تک
ہے۔‘‘( بدائع الصنائع، جلد6،
صفحہ 285، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
گاؤں اور شہر میں قربانی کے وقت سے متعلق بدائع الصنائع میں
ہے:’’ لا یجوز لأحد أن
یضحی قبل طلوع الفجر الثانی من الیوم الأول من أیام
النحر، و یجوز بعد طلوعہ سواء کان من أھل المصر أو من أھل
القریٰ غیر أن للجواز فی حق أھل المصر شرطاً زائداً و ھو
أن یکون بعد صلاۃ العید لا یجوز تقدیمھا علیہ
عندنا۔‘‘یعنی
کسی کے لیے بھی قربانی کے دنوں میں سے پہلے دن صبحِ
صادق ہونے سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں اورصبحِ صادق طلوع ہو جانے
کے بعد جائز ہے برابر ہے کہ قربانی کرنے والا شہری ہو یا
دیہاتی،لیکن شہریوں کے حق میں قربانی جائز
ہونے کے لیے ایک شرط زیادہ ہے اور وہ یہ کہ قربانی
عید کی نماز کے بعد ہو کہ ہمارے نزدیک قربانی کو
عید کی نماز پر مقدَّم کرنا جائز نہیں۔‘‘( بدائع الصنائع، جلد6، صفحہ 308، دار
الکتب العلمیۃ، بیروت)
قربانی کے مستحب وقت سے متعلق فتاوی
عالمگیری میں ہے:’’و الوقت المستحب للتضحیۃ فی حق أھل السواد بعد طلوع الشمس
و فی حق أھل المصر بعد الخطبۃ،کذا فی
الظھیریۃ۔‘‘یعنی گاؤں والوں کے حق میں قربانی
کا مستحب وقت سورج نکلنے کے بعد ہے اور شہریوں کے حق میں خطبہ کے بعد،
اسی طرح ظہیریہ میں ہے۔‘‘(الفتاوی الھندیۃ، جلد5، صفحہ 295،
کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے:’’شہر میں قربانی کی جائے تو
شرط یہ ہے کہ نماز ہوچکے لہٰذا نماز عید سے پہلے شہر میں
قربانی نہیں ہوسکتی اور دیہات میں چونکہ نماز
عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی
ہوسکتی ہے اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب
قربانی کی جائے اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عید کا
خطبہ ہوچکنے کے بعد قربانی کی جائے، یعنی نماز
ہوچکی ہے اور ابھی خطبہ نہیں ہوا ہے اس صورت میں
قربانی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ ‘‘(بہار شریعت، جلد3، صفحہ337،
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
قربانی کی ادائیگی میں مقامِ قربانی
کا اعتبار ہونے سے متعلق در مختار میں ہے:’’المعتبر مکان الأضحیۃ لا مکان من
علیہ‘‘ یعنی
قربانی کرنے میں جانور کی جگہ کا اعتبار ہے،جس پر قربانی
واجب ہے اس کی جگہ کا اعتبار نہیں۔‘‘
رد المحتار میں ہے:’’فلو کانت فی السواد والمضحی فی
المصر جازت قبل الصلاۃ، وفی العکس لم تجز۔قھستانی‘‘ یعنی اگر
قربانی کا جانور دیہات میں اور قربانی کرنے والا شہر
میں ہو تو (عید کی)نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز ہے،اس
کے برعکس جائز نہیں (یعنی
جبکہ جانور شہر میں اور قربانی کرنے والا گاؤں میں ہو تو شہر
میں عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز
نہیں)۔قہستانی۔‘‘(الدر المختار ورد المحتار، جلد9، صفحہ529، کوئٹہ)
بہار شریعت
میں ہے:’’یہ جو شہر و دیہات کا فرق
بتایا گیا یہ مقام قربانی کے لحاظ سے ہے قربانی
کرنے والے کے اعتبار سے نہیں یعنی دیہات میں
قربانی ہو تو وہ وقت ہے اگرچہ قربانی کرنے والا شہر میں ہو اور
شہر میں ہو تو نماز کے بعد ہو اگرچہ جس کی طرف سے قربانی ہے وہ
دیہات میں ہو لہٰذا شہری آدمی اگر یہ چاہتا
ہے کہ صبح ہی نماز سے پہلے قربانی ہو جائے تو جانور دیہات
میں بھیج دے۔‘‘(بہار شریعت، جلد3، صفحہ337، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟