Janwar Ka Seeng Toot Kar Zakham Bhar Jaye To Qurbani Ka Hukum?

جانور کا سینگ ٹوٹ کر زخم بھر جائے ،تو قربانی کا حکم ؟

مجیب:ابوحذیفہ محمدشفیق عطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-1655

تاریخ اجراء:24ذیقعدۃ الحرام  1440  ھ/28 جولائی2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک جانور خریدنے کا ارادہ ہے ،  مگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہے ۔ اس کے مالک سے پوچھا ، تو اس نے بتایا کہ ایک سینگ ٹوٹ گیا تھا،دوسرے کو بھی ہم نے شروع سے ہی نکال دیا تھا ،تو کیا ایسے جانور کی قربانی ہوسکتی ہے ، جبکہ جانور کے سر پر کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی سر پر اب کسی طرح کا کوئی زخم ہے ۔رہنمائی فرمائیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اس جانور کی قربانی جائز ہے ،سینگ کا ٹوٹنا اس وقت عیب شمار ہوتا ہے ، جبکہ جڑ سمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھی ٹھیک نہ ہوا ہو ،لہٰذا اگر کسی جانور کا سینگ جڑ سمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھرجائے ، تو اب اس کی قربانی ہوسکتی ہے ،  کیونکہ جس عیب کی وجہ سے قربانی نہیں ہورہی تھی ، وہ عیب اب ختم ہوچکا ہے ، لہٰذا اس کی قربانی ہوجائے گی ۔

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک مسئلے کے جواب میں فرماتے ہیں :’’سینگ ٹوٹنا اس وقت قربانی سے مانع ہوتاہے،جبکہ سر کے اندر جڑ تک ٹوٹے ، اگر اوپر کا حصہ ٹوٹ جائے ،تو مانع نہیں۔ فی ردالمحتار : یضحی بالجماء وھی التی لا قرن لها خلقۃ وکذا العظماء التی ذھب بعض قرنها بالکسر اوغیرہ۔ فان بلغ الکسر الی المخ لم یجز قهستانی،و فی البدائع ان بلغ الکسر المشاش لایجزئی والمشاش   رؤس      العظام   مثل    الرکبتین     والمرفقین‘‘ردالمحتار میں  ہے  جماء کی قربانی جائز ہے، یہ وہ ہے کہ جس کے سینگ پیدائشی نہ ہو اور یوں عظماء بھی، یہ وہ ہےکہ جس کے سینگ کا کچھ حصہ ٹوٹا ہواورمخ تک ٹوٹ چکا ہو ،تو ناجائز ہے۔ قہستانی اور بدائع میں ہے اگر یہ ٹوٹ مشاش تک ہو ،تو ناجائز ہے اور مشاش ہڈی کے سرے کو کہتے ہیں ،جیسے گھٹنے اورکہنیاں او ر  پھر اگر ایسا ہی ٹوٹا تھا کہ مانع ہوتا ،مگر اب زخم بھر گیا، عیب جاتا رہا، تو حرج نہیں’’لان المانع قد زال وھذا ظاھر‘‘  کیونکہ مانع جاتا رہااور یہ ظاہرہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد 20،صفحہ 460، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم