Jahez Ki Niyat Se Kharide Gaye Saman Par Qurbani Ka Hukum

جہیز کی نیت سے خریدے گئے سامان کی وجہ سے قربانی کی تفصیل

مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2877

تاریخ اجراء: 08محرم الحرام1446 ھ/15جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی نے جہیز کی نیت سے سامان خریدا مگر ابھی شادی نہیں ہوئی اور وہ سامان استعمال میں نہیں ہے تو کیا اس سامان پر قربانی واجب ہو گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جہیز کے لئے جمع کیا گیا سامان عموماً  حاجت اصلیہ(یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے،جیسے رہائش گاہ، خانہ داری کےوہ سامان جن کی حاجت ہو،سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی) سے زائد ہوتا ہے تو ایسی صورت میں عید الاضحی کے ایام میں اگر اس سامان کی قیمت تنہا یا دیگر حاجت اصلیہ سے زائد اموال(سونا، چاندی،روپے پیسےوغیرہ) و سامان  کے ساتھ مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا ا س سے زائد ہو ، تو دیگر شرائط کی موجودگی میں ، جس کی ملکیت میں یہ ہے ، اس پر قربانی واجب ہوگی ۔

   قربانی واجب ہونے کانصاب بیان کرتے ہوئے”بدائع الصنائع“میں علامہ ابوبکربن مسعود کاسانی حنفی (متوفی 587ھ)فرماتے ہیں:” فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر “ترجمہ:(قربانی میں)مالداری کااعتبارہوناضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)یابیس دیناراڑھے سات تولہ سونا)ہوں یارہائش،خانہ داری کے سامان، کپڑے،خادم،گھوڑا، ہتھیاراوروہ اشیاء جن کے بغیرگزارہ نہ ہو،ان کے علاوہ کوئی ایسی چیزہو ، جواس(دوسودرہم یابیس دینار)کی قیمت کوپہنچتی ہواوریہ ہی صدقہ فطرکانصاب ہے۔(بدائع الصنائع،کتاب التضحیۃ،ج 5،ص 64،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   در مختار میں ہے” تجب۔۔۔ علی کل۔۔۔ مسلم۔۔۔ ذی نصاب فاضل عن حاجتہ الأصلیۃ۔۔۔ و إن لم ینم۔۔۔ و۔۔۔بہذا النصاب تحرم الصدقۃ۔۔۔ و تجب الأضحیۃ و نفقۃ المحارم علی الراجحیعنی راجح قول پر ہر ایسا مسلمان جو حاجت اصلیہ سے زائد نصاب، جو اگرچہ مال نامی نہ ہو، کا مالک ہو اس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے، اور اس پر زکاۃ لینا حرام، محارم کا نفقہ اور قربانی واجب ہوتی ہے۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الزکاۃ،ج 2،ص 358،359،360،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم