Halal Janwar Ke Phephray Khana Kaisa?

حلال جانور کے پھیپھڑے کھانا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13240

تاریخ اجراء:07رجب المرجب1445 ھ/19جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حلال جانور کے پھیپھڑے کھانا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پھیپھڑے کھانا  حلال  ہے ، اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔حلال جانور کے کُل 22 اجزاء ایسے ہیں جن میں سے بعض کا کھانا حرام، ممنوع اور مکروہ ہے، جبکہ ان ممنوعہ اجزاء میں سے سات  (07)اجزاء کا ذکر تو صراحتاً حدیثِ مبارک میں موجود ہے۔

   چنانچہ معجم الاوسط کی حدیثِ مبارک میں ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم حلال جانور کے سات اجزاء کو مکروہ جانتے تھے: ”عن ابن عمر قال كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يكره من الشاة سبعاً : المرارة، والمثانة، والمحياة، والذكر،  والأنثيين، والغدة، والدم ۔ “  یعنی  حضرتِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بکری  کے سات اجزاء کو مکروہ جانتے تھے: پتہ، مثانہ، شرمگاہ، ذکر، خصیے، غدود اور خون۔(المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث 9480، ج 09، ص 181، دار الحرمين، القاهرة)

   یہاں کراہت سے مراد کراہتِ تحریمی ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ  میں ہے: ” مختار ومعتمدیہ ہے کہ کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہے یہاں تک کہ امام ملک العلماء ابوبکر مسعود کا شانی قدس سرہ نے بلفظ حرمت تعبیر کی۔ عالمگیری میں ہے:" اما بیان مایحرم اکلہ من اجزاء الحیوان سبعۃ الدم المسفوح والذکر و الانثیان والقبل والغدۃ والمثانۃ والمرارۃ۔" یعنی حیوان کے ان اجزاء کا بیان  جن کا کھانا حرام ہے،  وہ سات ہیں: بہنے والا خون، ذکر، خصیے، شرمگاہ ، غدود، مثانہ اور پتہ۔ “  (فتاوٰی رضویہ، ج 20، ص 235، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   ان اجزاء کے ممنوع ہونے کی علت خبث یعنی گندگی ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ  میں ہے: ”ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: خون تو حرام ہے کہ قرآن عظیم میں اس کی تحریم منصوص ، اور باقی چیزیں میں مکروہ سمجھتاہوں کہ سلیم الطبع لوگ ان سے گھن کرتے ہیں اور انھیں گندی سمجھتے ہیں، اور اللہ تعالٰی فرماتاہے:"ویحرم علیہم الخبائث"یعنی یہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان پر سب گندی چیزیں حرام فرمائے گا۔ “ (فتاوٰی رضویہ، ج 20، ص 234، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   ماقبل بیان کردہ حدیثِ مبارک میں مذکور سات اجزاء کے ممنوع ہونے کی علت چونکہ خبث یعنی گندگی ہے، لہذا فقہائے کرام نے استدلال کرتے ہوئے جانور کے مزید  وہ  اجزاء کہ جن میں یہ علت موجود تھی،  انہیں بھی مکروہ و ممنوع قرار دیا اور اپنی کتب میں ان کے مکروہ ہونے پر نص فرمائی، مثلاً  حرام مغز، گردن کے دونوں پٹھے، جگر کاخون، تلی کا خون، دل کا خون اور نطفہ وغیرہ کہ ان تمام اجزاء میں بھی گندگی کی علت پائی جاتی ہے۔ بلکہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تو "فتاوٰی رضویہ" میں دُبُر، اوجھڑی اور آنتوں کی ممانعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دُبُر، فرج وذکر سے، اوجھڑی اور آنتیں، مثانے سے خباثت میں اگر زیادہ نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں، لہذا گندگی کی علت ان اجزاء میں پائے جانے کی وجہ سے یہ سب اجزاء بھی ممانعت میں داخل ہیں ۔

   لیکن فقہائے کرام نے ان ممنوعہ اجزاء میں کہیں بھی پھیپھڑوں  کو شامل نہیں فرمایا، لہذا مذبوح حلال جانور کے پھیپھڑے کھانا شرعاً جائز ہے، اس میں ممانعت والی کوئی بات نہیں۔

   مذکورہ بالا سات اجزاء کے علاوہ مزید اجزاء کے ممنوع ہونے سے متعلق فتاوٰ ی رضویہ میں ہے: ”یہ تو سات  بہت کتب مذہب، متون وشروح وفتاوٰی میں مصرح اور علامہ قاضی بدیع خوارزمی صاحب غنیۃ الفقہاء وعلامہ شمس الدین محمد قہستانی شارح نقایہ وعلامہ محمد سیدی احمد مصری محشی درمختار وغیرہم علماء نے دو چیزیں اور زیادہ فرمائیں (۸) نخاع الصلب یعنی حرام مغز،  اس کی کراہت نصاب الاحتساب میں بھی ہے (۹)گردن کے دو پٹھے جو شانوں تک ممتد ہوتے ہیں، اور فاضلین اخیرین وغیرہما نے تین اور بڑھائیں (۱۰) خون جگر (۱۱) خون طحال (۱۲) خون گوشت یعنی دم مسفوح نکل جانے کے بعد جو خون گوشت میں رہ جاتاہے۔۔۔۔۔ اقول:  وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی اوج التحقیق علماء کی ان زیادات سے ظاہر ہوگیا کہ سات میں حصر مقصود نہ تھا۔ بلکہ صرف باتباع نظم حدیث ونص امام ان پر اقتصار واقع ہوا، اور خود ان علمائے زائدین نے بھی قصد استیعاب نہ فرمایا، یہ امر انھیں عبارات مذکورہ سے ظاہر۔۔۔۔۔واضح ہوا کہ عامہ کتب میں لفظ سبع (سات) صرف باتباع حدیث ہے۔ جس طرح کتب کثیرہ میں شاۃ (بکری) کی قید، کما مرعن تنویر الابصار ومغنی المستفتی ومثلہ فی غیرہما حالانکہ حکم صرف بکری سے خاص نہیں، یقینا سب جانوروں کا یہی حکم ہے۔۔۔۔تو جیسے لفظ شاۃ محض باتباع حدیث واقع ہوا، اور اس کا مفہوم مراد نہیں، یونہی لفظ سبع ۔ اور اہل علم پر مستتر نہیں کہ استدلال بالفحوٰی یا اجرائے علت منصوصہ خاصہ مجتہد نہیں، کما نص علیہ العلامۃ الطحطاوی تبعا لمن تقدمہ من الاعلام  اور یہاں خود امام مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اشیاء ستہ کی علت کراہت پر نص فرمایا کہ خباثت ہے۔ اب فقیر متوکلا علی اللہ تعالٰی کوئی محل شک نہیں جانتا کہ دُبر یعنی پاخانے کا مقام، کرش یعنی اوجھڑی ،امعاء یعنی آنتیں بھی اس حکم کراہت میں داخل ہیں۔  بیشک دُبرفرج وذکر سے اور کرش وامعاء مثانہ سے اگر خباثت میں زائد نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں۔ فرج وذکر اگر گزر گاہ بول ومنی ہیں دُبرگزر گاہ سرگین ہے، مثانہ اگر معدن بول ہے شکنبہ و رودہ مخزن فرث ہیں ۔ اب چاہے اسے دلالۃ النص سمجھئے خواہ اجرائے علت منصوصہ۔۔۔۔اب سات کے سہ گونہ سے بھی عددبڑھ گیا اور ہنوز اور زیادات ممکن۔  وہ سات اشیاء حدیث میں آئیں، اور پانچ چیزیں کہ علماء نے بڑھائیں، اور دس فقیر نے زیادہ کیں۔(فتاوٰی رضویہ، ج 20، ص 240-236، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   حلال جانور کے کُل 22 اجزاء کا کھانا ممنوع ہے۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”حلال جانور کے سب اجزاء حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں (۱) رگوں کا خون (۲) پتا (۳) پُھکنا (۴) و (۵) علامات مادہ ونر (۶) بیضے (۷) غدود (۸) حرام مغز (۹) گردن کے دو پٹھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں (۱۰) جگر کا خون (۱۱) تلی کا خون (۱۲) گوشت کا خون کہ بعد ذبح گوشت میں سے نکلتا ہے (۱۳) دل کا خون (۱۴) پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتاہے (۱۵) ناک کی رطوبت کہ بھیڑ میں اکثر ہوتی ہے (۱۶) پاخانہ کا مقام (۱۷) اوجھڑی (۱۸) آنتیں (۱۹) نطفہ (۲۰) وہ نطفہ کہ خون ہوگیا (۲۱) وہ کہ گوشت کا لوتھڑا ہوگیا (۲۲) وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا بے ذبح مرگیا۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 20، ص 241-240، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   پھیپھڑے کھانا حلال ہے۔ جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ’’ماکول اللحم جانوروں کی آنتیں و بٹ و تلی و پھیپھڑا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ ‘‘ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:’’تلی اور پھیپھڑا حلال ہیں ، ان میں کراہت نہیں۔‘‘ (فتاوی امجدیہ،ج03،ص299-298، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم