مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fam-382
تاریخ اجراء:01 ذی القعدۃالحرام1445ھ/10مئی2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اور میری زوجہ
پاکستان سے حج کے لیے جارہےہیں،ہمیں
یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ہمیں پاکستان میں عید
کی قربانی کرنا ہوگی؟یا عید کی
قربانی ہم سے معاف ہوجائے گی؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حج اور عید الاضحیٰ کی قربانی دو الگ الگ عبادتیں ہیں،دونوں کے اپنے احکام اور شرائط ہیں۔عید
کی قربانی مقیم صاحبِ نصاب بالغ شخص پر واجب ہوتی ہے،مسافر اور
ایسے شخص پر جو صاحبِ نصاب نہ ہو،عید کی قربانی واجب نہیں ہوتی،لہٰذا صورتِ مسئولہ
میں اگر آپ اور آپ
کی زوجہ قربانی کے ایام (10،11،12ذوالحجۃ الحرام) میں
مسافر ہوں، توقربانی
کی شرائط پوری نہ ہونے
کے سبب آپ
لوگوں پرعید کی قربانی
لازم نہیں ہو گی،اور اگر آپ لوگ قربانی کے
ایام میں مسافر نہ ہوں،بلکہ مقیم ہوں اورساتھ ہی آپ دونوں یا
کوئی ایک صاحبِ نصاب بھی ہو،تو دیگر شرائط کے ساتھ جو بھی صاحب نصاب ہو ،اس پرعید
کی قربانی لازم ہو گی۔
واضح رہے
کہ اگر کوئی شخص حج قِران یا تمتع کر رہا
ہو،تو اس پر
قربانی واجب ہونے کی صورت میں
عید کی واجب قربانی کے علاوہ ، حج کی قربانی بھی الگ سے واجب ہوگی، جو اُسے
حدود حرم میں کرنا
ہوگی، البتہ عید کی قربانی حاجی کو
مکہ مکرمہ میں ہی کرنا ضروری نہیں ،بلکہ یہ قربانی وہ اپنے
وطن میں بھی کروا سکتا ہے،مگر
اِس میں یہ خیال رکھنا
ہو گاکہ دونوں جگہ قربانی کے ایام موجود ہوں یعنی مکہ مکرمہ میں بھی
جہاں خود حاجی موجود ہے اورجس جگہ حاجی کی قربانی ہونی
ہے،وہاں بھی
قربانی کے ایام ہوں۔
حاجی
کوکیسے یہ معلوم ہو کہ وہ ایام قربانی میں مسافر ہے
یا مقیم ؟تو اس کے متعلق
اصول یہ ہے کہ اگر
حاجی منیٰ جانے
سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا
اس سے زیادہ کے لیےٹھہرا ہو،یا اگر منیٰ جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن کے لیے قیام
نہ کیا ہو،مگر12ذوالحجہ کی رمی کے بعد
غروب آفتاب سے پہلے پہلے
وہ مقیم ہوجائے،اس طرح
کہ غروب آفتاب سے پہلے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے وہ عزیزیہ
یا مکہ
مکرمہ آجائے ،تو ان دونوں صورتوں میں حاجی
ایام قربانی میں مقیم کہلائے گا،قربانی کی
شرائط پائے جانے کی
صورت میں اُس پر عید کی قربانی
واجب ہوگی، لیکن اگر
حاجی نے نہ تو منیٰ جانے سے پہلے مکہ
مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام
کیا ہو اور نہ ہی وہ 12ذو الحجہ کی غروب آفتاب سے پہلے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے عزیزیہ یا مکہ مکرمہ آئے ،تو
ایسی صورت میں حاجی ایامِ قربانی میں مقیم نہیں کہلائے گا،بلکہ مسافر ہوگا اور اُس پرعید کی قربانی واجب نہیں ہوگی،ہاں اگر نفلی
قربانی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ،اِس پر اُسےثواب حاصل ہوگا۔
قارن اور
متمتع پر حج کی قربانی شکرانہ کے طور پر واجب ہے،چنانچہ لباب المناسک اور اس کی
شرح میں ہے:’’(یجب)أی اجماعا (علی القارن والمتمتع ھدی شکرا لما وفقہ اللہ تبارک و تعالی للجمع بین
النسکین فی اشھر
الحج بسفر واحد)‘‘ترجمہ:
قارن اور متمتع پر قربانی اجماعاً واجب ہے،اس
شکرانہ میں کہ اللہ تعالی نے اسے ایک ہی سفر میں اشہر حج کے اندر
دونوں عبادتوں کو جمع کرنے
کی توفیق عطا فرمائی۔(لباب المناسک مع شرحہ،فصل فی ھدی القارن والمتمتع،صفحہ368،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)
صدر
الشریعہ مفتی امجد علی
اعظمی علیہ رحمۃ
اللہ القوی بہار
شریعت میں فرماتے ہیں:’’یہ(حج
کی ) قربانی وہ نہیں جو بقر عید
میں ہوا کرتی ہے کہ وہ تو مسافر پر اصلاً نہیں اور مقیم مالدار پر واجب ہے اگرچہ حج میں ہو، بلکہ یہ(قربانی ) حج کا شکرانہ ہے۔قارِن
اور متمتع پر واجب اگرچہ فقیر
ہو اور مُفْرِد کے لیے مستحب اگرچہ غنی ہو۔‘‘(بھار شریعت،جلد1،حصہ6،صفحہ1140،مکتبۃ
المدینہ،کراچی)
مُسافر
حاجی پر بقرہ عید
کی قربانی واجب نہیں ،چنانچہ تنویر
الابصار مع در مختار میں ہے:’’(تجب )
التضحية(علی حر مسلم مقيم موسر عن نفسہ )فلا تجب
علی حاج مسافر‘‘ترجمہ:ہر آزاد مسلمان مقیم صاحب نصاب شخص پر اپنی
طرف سے قربانی کرنا واجب ہے،لہذا مسافر
حاجی پر قربانی واجب نہیں۔(تنویر
الابصار مع در مختار،جلد9،صفحہ523-524،دارالمعرفہ،بیروت)
بہار
شریعت میں ہے:’’مسافر پر اگرچہ (قربانی)واجب نہیں مگر
نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے، ثواب پائے گا۔ حج کرنے والے جو
مسافر ہوں اُن پر قربانی واجب نہیں اور مقیم ہوں تو واجب ہے۔‘‘(بھار شریعت،جلد3،حصہ15،صفحہ332،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
فتاوی حج و عمرہ میں
ایک سوال کے جواب میں ہے:’’ سوال میں مذکور شخص اور اس کی
والدہ کو چاہیے کہ وہ اپنی حالت پر
غور کر لیں کہ آیا
انہوں نے حج قران یا حج تمتع کیا ہے ،اگر کیا
ہے تو اُن پر دم شکر دینا لازم ہے ۔۔۔ اس کے علاوہ یہ دونوں اس بات پر بھی توجہ
کریں کہ آیا ان میں بقر عید میں کی جانے
والی قربانی کی شرائط ایام
قربانی میں پائی جارہی
ہیں یا نہیں ؟ اگر پائی جارہی ہیں تو ان پر یہ قربانی کرنا
بھی واجب ہے ،اگر چہ وہ اپنے اہل
خانہ کے ذریعے یہ قربانی اپنی جانب سے کروالیں،جبکہ
اور کوئی مانع شرعی نہ ہو۔‘‘
’’صاحب
نصاب کہ جس میں قربانی کی دیگر
شرائط پائی جائیں
وہ عید الاضحیٰ
کی قربانی مکہ مکرمہ میں بھی
کر سکتا ہے اور اپنے وطن میں بھی
کرواسکتا ہے،لیکن دم شکر
ہو یادم جبر اس کے جانور کا سرزمین
حرم پر ذبح ہونا لازم ہے ۔“(فتاوی حج و عمرہ،حصہ13،صفحہ67،جمعیت اشاعت اھلسنت،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟