Aqiqah Durust Na Hone Ki Ek Soorat

 

عقیقہ درست نہ ہونے کی ایک صورت

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو شخص روزانہ جانور ذبح کر کے گوشت بیچتا ہے، میں نےاس سے یہ بات کی کہ بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں، مجھے ایک حصہ عقیقہ کے لئے چاہئے، تو آپ جو جانور خریدیں اس کی قیمت کو سات حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کی قیمت میں ادا کر دوں گا،تو جانور ذبح ہونے کے بعد گوشت کا ایک حصہ مجھے دے دینا اور باقی چھ حصہ آپ بیچ دینا جیسا کہ آپ بیچتے ہیں، تو کیا اس طریقہ کار پر عقیقہ درست ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں عقیقہ کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے، اس طریقہ کار کے مطابق عقیقہ کرنے سے عقیقہ درست نہیں ہوگا۔

   اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ:

   قربانی کے بڑے جانور میں مسلمان افراد شریک ہوں،تو اس جانور کی قربانی درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں جتنے مسلمان افراد شریک ہیں تمام کا مقصود قربت یعنی نیکی ہو،یہی حکم بشمول عقیقہ اورتمام قربانیوں کا ہے یعنی کسی بھی قربت کی ادائیگی کے لئےبڑے جانور میں حصہ ڈالا، تو اس کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں جتنے مسلمان افراد شریک ہوں، تمام کا مقصود قربت ہو، اگر کسی ایک کا ارادہ بھی قربت کا نہ ہو، تو اس صورت میں کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی۔ پوچھی گئی صورت میں آپ کا مقصود تو عقیقہ ہے جو اولاد کی نعمت ملنے پر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئے کرنا بلا شبہ قربت ہے، لیکن جس کے ساتھ آپ شریک ہونا چاہ رہے ہیں، اس کا مقصد گوشت حاصل کر کےبیچنا ہے جو کہ قربت میں داخل نہیں لہٰذا اس طرح عقیقہ کرنے سے عقیقہ ادا نہیں ہوگا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، 11/28-بدائع الصنائع،6/306-فتاویٰ رضویہ، 20/593، 594)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم