Gosht Bechne Wale Ke Sath Bare Janwar Mein Hissa Le Kar Aqiqah Karne Ka Hukum Kya Hai?

گوشت بیچنے والے کے ساتھ بڑے جانور میں حصہ لے کر عقیقہ کرنے کا حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13301

تاریخ اجراء:01رمضان المبارک 1445 ھ/12 مارچ 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   جو شخص روزانہ جانور ذبح کر کے گوشت بیچتا ہے، میں نےاس سے یہ بات کی کہ بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں، مجھے  ایک حصہ عقیقہ کے لئے چاہئے ، تو آپ جو جانور خریدیں اس کی قیمت کو سات حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کی قیمت میں ادا کر دوں گا،تو جانور ذبح ہونے کے بعد گوشت کا ایک حصہ مجھے دے دینا اور باقی چھ حصہ آپ بیچ دینا جیسا کہ آپ بیچتے ہیں، تو کیا اس طریقہ کار پر عقیقہ درست ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں عقیقہ کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے، اس طریقہ کار کے مطابق عقیقہ کرنے سے عقیقہ درست نہیں ہوگا۔

   اس  مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ:

   قربانی کے بڑے جانور میں  مسلمان افراد شریک ہوں،تو اس جانور کی قربانی درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں جتنے مسلمان افراد شریک ہیں تمام کا مقصود  قربت  ہو ،یہی حکم بشمول عقیقہ تمام قربتوں کا ہے کہ کسی بھی قربت کی ادائیگی کے لئےبڑے جانور میں حصہ ڈالا ، تو  عقیقہ صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں جتنے مسلمان افراد شریک ہوں، تمام کا مقصود قربت ہو، اگر کسی ایک کا ارادہ بھی قربت کا نہ ہو ، تو قربت والے کی قربت بھی ادا نہیں ہوگی۔ پوچھی گئی صورت میں آپ کا مقصود تو عقیقہ ہے جو اولاد کی نعمت ملنے پر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئے کرنا  بلا شبہ قربت ہے ،لیکن جس کے ساتھ آپ شریک ہونا چاہ رہے ہیں ، اس کا مقصد گوشت  حاصل کر کےبیچنا ہے جو کہ قربت میں داخل نہیں لہٰذا اس طرح عقیقہ کرنے سے عقیقہ ادا نہیں ہوگا۔

   بدائع الصنائع پھر فتاوی عالمگیری پھرحاشیۃ الطحطاوی میں ہے:” ولا يشارك المضحي فيما يحتمل الشركة من لا يريد القربة رأسا ، فإن شارك لم تجز عن الأضحية ، وكذا هذا في سائر القرب إذا شارك المتقرب من لا يريد القربة لم يجز عن القربة “یعنی قربانی کرنے والا ، قابلِ شرکت جانور میں ایسے شخص کو شریک نہ کرے کہ جس کا  ارادہ اصلاً ہی قربت کا نہ ہو، پس اگر کسی نے شریک کر لیا، تو قربانی نہیں ہو گی ۔  یہی حکم تمام قربتوں میں ہے کہ  جب متقرب نے ایسے شخص کو شریک کیا جس کا ارادہ قربت کا نہیں ، تو وہ جانور قربت سے کافی نہ ہوگا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 11، صفحہ 28، مطبوعہ:بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:”كذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل ؛ لأن ذلك جهة التقرب إلى الله تعالى عز شأنه بالشكر على ما أنعم عليه من الولد “یعنی یونہی اگر قربانی کرنے والوں میں سے کچھ عید سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کا عقیقہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں (تو قربانی درست ہے )  کیونکہ بچے کی ولادت پر نعمت کے شکرانے میں عقیقہ کرنا ،  اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے ۔(بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 72، مطبوعہ:بیروت)

   البحر الرائق میں ہے:لا بد أن يكون الكل مريدا للقربة ، وإن اختلفت جهة القربة فلو أراد أحد السبعة لحما لأهله لا يجزئهم “یعنی ضروری ہے کہ تمام شرکا کا ارادہ قربت کا ہو اگرچہ قربت کی جہت مختلف ہو، لہٰذا اگر ایک شریک نے اپنے اہلِ خانہ کے لئے گوشت  حاصل کرنے کا ارادہ کیا، تو تمام شرکا کی قربانی  نہیں ہوگی۔(البحر الرائق، جلد 2،صفحہ 387، مطبوعہ:بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے:” قصد اللحم من المسلم ينافيها ، وإذا لم يقع البعض قربة خرج الكل من أن يكون قربة ؛ لأن الإراقة لا تتجزأ “یعنی مسلمان کا گوشت حاصل کرنے کی نیت کرنا نیکی کی نیت کے منافی ہے اور جب قربانی کے جانور کا بعض حصہ نیکی کے طور پر قربان نہیں ہوا تو سارا ہی نیکی ہونے سے نکل گیا کیونکہ ذبح کرکے خون بہانا تجزی کو قبول نہیں کرتا ۔(تبیین الحقائق، جلد6،صفحہ 8، مطبوعہ:مصر)

   امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”ایک گائے میں ایک سے سات تک کا عقیقہ ہوسکتا ہے ، اگر عقیقہ کے سوا دوسرا حصہ ایک یادو یا کتناہی خفیف غیر قربت مثلاً اپنے کھانے کی نیت کو رکھا، تو عقیقہ ادا نہ ہوگا ۔ ہاں اگر وہ حصے بھی قربت کے ہوں ، مثلاً ایک حصہ عقیقہ ، ایک حصہ عیدِ اضحی ، تو جائز ہے“(فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ 593۔594، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم