Ghar Ka Pala Hua Bakra Bech Kar Bara Janwar Lena Aur Us Mein Aqiqah Ka Hissa Shamil Karna

گھر کا پالا ہوا بکرا بیچ کر بڑا جانور لینا اور اس میں عقیقے کا حصہ شامل کرنا کیسا ؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-1730

تاریخ اجراء:13ذوالقعدۃ الحرام1445ھ/22مئی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ میں نے قربانی کے لیے ایک بکراپالا تھا  ۔اب ارادہ یہ ہے کہ اسے بیچ کر   اور اس میں  کچھ مزید رقم ملا کر ایک بڑا جانور خرید لوں اور اس  میں اپنی قربانی کے ساتھ بچوں کے عقیقے کے حصے بھی شامل کرلوں۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ

   (1)کیا میرا اس پالتو بکرے کو بیچ کر قربانی کے لیے بڑا جانور خریدنا، جائز ہے؟

   (2)کیا میں قربانی کے جانور میں اپنے بچوں کے  عقیقے کے حصے شامل کرسکتا ہوں ؟

   نوٹ:یہ بکرا  پالتو ہے ،خریدا نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قربانی کی منت  مانی  ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)پوچھی گئی صورت میں آپ کا قربانی کے لیے رکھے ہوئے  بکرے کو بیچ کر بڑا جانور لینا شرعاً جائز ہے۔

مسئلہ کی تفصیل:

   اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو جانور پہلے سے ہی انسان کی ملکیت میں ہو،خریدا ہوا نہ ہو یا قربانی کی نیت کے بغیر خریداہو،تو اس کی قربانی کی نیت کر لینے سے علی التعیین اسی جانور کی قربانی لازم نہیں ہوتی،خواہ وہ پالنے یا خریدنے والا شخص غنی ہو یا فقیر،لہٰذا پوچھی گئی صورت میں بھی جب وہ بکرا گھر کا پالتو ہے،تو اگرچہ اس میں قربانی کی نیت کر لی تھی،تب بھی اسے بیچنے میں شرعاً حرج نہیں۔

   فقیر نےیا غنی نے بکرا خریدااور خریدتے وقت اس بکرے پر قربانی کی نیت نہ تھی، بعد میں قربانی کی نیت کی، تو اس خاص بکرے کی قربانی کے حکم کو بیان کرتے ہوئے بدائع الصنائع میں ہے:” اشترى شاة ولم  ينو الاضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحى بها لا يجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا لان النية لم تقارن الشراءفلا تعتبر“یعنی:اگر کسی نے بکری خریدی اور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی،توبعد میں قربانی کی نیت کرنے سے اس شخص پر اس خاص جانور کی قربانی واجب نہ ہوگی، برابر ہے کہ یہ شخص غنی ہو یا فقیر ،کیونکہ اس خاص جانور کی قربانی کرنے کی نیت خریدنے سے ملی ہوئی نہیں ہے اور خریدنے کے بعد اس خاص جانورکی قربانی کی نیت کا اعتبار نہیں ہے ۔(بدائع الصنائع ،جلد5،صفحہ62،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   رد المحتار میں ہے:”فلو کانت فی ملکہ فنوی ان یضحی بھا،او اشتراھا ولم ینوالاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذٰلک لایجب،لان النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر“ترجمہ:اگر بکری(وغیرہ قربانی کا جانور )اپنی ملک میں ہواور اس نے اس کی قربانی کی نیت کر لی یا خریدتے وقت قربانی کی نیت نہ کی ہو، پھر بعد میں قربانی کی نیت کر لی ہو، تو اس سے اس پر قربانی واجب نہ ہوگی، کیونکہ خریدتے وقت نیت نہیں  کی،لہٰذا بعد کی نیت معتبر نہیں ہوگی۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار،کتاب الاضحیہ،جلد9،صفحہ532،دار الفکر،بیروت )

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”فقیر اگر بہ نیت قربانی خریدے ،اس پر خاص اس جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔اگر جانور اس کی مِلک میں تھا اور قربانی کی نیت کرلی یا خریدا،مگرخریدتے وقت نیت قربانی نہ تھی، تو اس پروجوب نہ ہوگا، غنی پر ایک اضحیہ خود واجب ہےاور اگر اَورنذر بصیغہ نذر کرے گا ،تو وہ بھی واجب ہوگا۔“(فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ451،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   بہار شریعت  میں ہے:بکری کا مالک تھا اور اس کی قربانی کی نیت کر لی یا خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہ تھی، بعد میں نیت کر لی، تو اس نیت سے قربانی واجب نہیں ہوگی۔ “(بھار شریعت ،جلد3،صفحہ332، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی )

   (2)قربانی کے بڑے جانور،مثلاً گائے یا اونٹ،وغیرہ میں  عقیقہ کا حصہ بھی شامل کرسکتے ہیں۔

مسئلہ کی تفصیل:

   اس کی تفصیل یہ ہے کہ عقیقہ اولادکی نعمت ملنے پر شکرانے کے طور پرکیاجاتاہے، جس طرح قربانی میں عبادت کی نیت ہوتی ہے،اسی طرح عقیقے میں بھی شکرانے کے طورپرعبادت کی نیت ہوتی ہے اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ قربانی کے بڑے جانور میں سب شرکا کی نیت تقَرُّب یعنی عبادت کی نیت ہونا ضروری ہے،خواہ وہ تقَرُّب  مختلف قسم کے ہی ہوں، مثلاً:عقیقہ،حجِ قِران،حجِ تمتع  کی قربانی کہ سب سے تقَرُّب مقصود ہوتاہے،لہٰذا ان سب کو اگر گائے یا اونٹ کی قربانی میں شامل کیا جائے،تو سب ادا ہوجائیں گے۔

   قربانی کے بڑے جانور میں عقیقے کاحصہ شامل کرنے کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:ان الجھات وان اختلف صورۃ فھی فی المعنی  واحد ،لان المقصود من الکل التقرب الی اللہ وکذالک ان اراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولد لہ من قبل ، لان ذالک جھۃ التقرب الی اللہ تعالیٰ بالشکر علی ما انعم علیہ من الولد ، کذاذکر محمد رحمہ اللہ فی نوادر الضحایا‘‘ ترجمہ: (قربانی کے بڑے جانور میں عقیقہ وغیرہ مختلف عبادات کی نیتیں کرنے کے سبب)اگرچہ صورۃ ًجہتیں مختلف ہیں، مگر معنوی اعتبار سے ایک ہی ہیں، کیونکہ ان سب سے مقصود تقرب الی اللہ ہے،یونہی اگر (قربانی کےشرکاء میں سے )کسی   نے  اپنے  نومولود  بیٹے کی طر ف سے عقیقہ کرنے کی  نیت کی  (تو یہ بھی جائز ہے)،اس لیے کہ بیٹے کی نعمت ملنے پر شکرانے کے طورپر(عقیقہ میں جانور ذبح کرنا ) عبادت کی ہی ایک صورت ہے ،مُحَرِّر ِمذہب امام محمد علیہ الرحمۃ  نے نوادرالضحایا میں یونہی ذکر فرمایا ۔    (بدائع الصنائع،جلد5،صفحہ 72،دار الکتب العلمیہ،بیروت )

   فتاوی امجدیہ میں ہے: کتبِ فقہ میں مصرح ( یعنی اس بات کی صراحت کی گئی ہے ) کہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے ... تو جب قربانی میں عقیقہ کی شرکت جائز ہوئی ، تو معلوم ہوا کہ گائے یا اونٹ کا ایک جزء عقیقہ میں ہوسکتا ہے اور شرع نے ان کے ساتویں حصہ کو ایک بکری کے قائم مقام رکھا ہے ، لہٰذا لڑکے کے عقیقہ میں دو حصے ہونے چاہیے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ یعنی ساتواں حصہ کافی ہے ، تو ایک گائے میں سات لڑکیاں یا تین لڑکے اور ایک لڑکی کا عقیقہ ہوسکتا ہے ۔ (فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 302 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم