Faut Shuda Ki Taraf Se Qurbani Karne Ka Saboot

فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت

مجیب: ابوالفیضان عرفان احمد مدنی

فتوی نمبر: WAT-1753

تاریخ اجراء: 28ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/17جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں نے ٹی وی پر   سنا کہ کسی سے سوال ہوا :

   "فوت شدہ بندے کی طرف سے قربانی کرنے کے کیا احکام ہیں۔؟"

   تو اس نے جواب دیا :"حضور پاک  صلی اللہ علیہ و سلم نے فوت شدگان کی طرف سے قربانی نہیں کی،اگر حضور پاک  صلی اللہ علیہ و سلم فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرتے ،تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے کرتے ۔"

   لہذا اس بارے میں   رہنمائی فرما دیں کہ :کیا ہم فوت شدہ کے لیے قربانی کرنے کے بجائے، صدقہ کر سکتے ہیں یا   یہ بتا دیں کہ  فوت شدگان کی طرف سےایام قربانی میں  صدقہ دینا افضل ہے یا قربانی کرنا۔   ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فوت شدگان  کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور  یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قول اور فعل دونوں سے ثابت ہے ۔جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

   "   رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا ارادہ فرماتے ، تودو بڑے، موٹے تازے ، سینگوں والے ، چت کبرے ، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے اور ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی جانب سے قربان کرتے ،جو توحید و رسالت کی گواہی دینے والے ہیں اور دوسرا محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سےقربان  کرتے ۔"(سنن ابن ماجہ ،جلد 3،صفحہ 104، دار إحياء الكتب العربية)

   اس حدیث پاک میں   حضور   صلی اللہ علیہ  وسلم    نے اپنی آل کی طر ف سے قربانی کی ،اورآل میں بیٹے بھی شامل ہیں ،حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بیٹے پہلے ہی وفات پا چکے تھے ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ:" حضور  صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم ارشاد فرمایا کہ ،میری وفات کے بعد میری طرف سے قربانی کرنا ۔"

   جیساکہ  حضرت حنش رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ:

   " میں نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ کو دو دنبوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا ۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ (یعنی ایک کے بجائے دو جانوروں کی قربانی کیوں؟) انہوں نے جواب دیا: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ  میں آپ کی وفات کے بعد  آپ کی طرف سے بھی قربانی کروں۔ پس یہ ایک قربانی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے کر رہا ہوں۔" (سنن ابو داؤد،جلد 3،صفحہ94، المكتبة العصرية)

   نیزفوت شدگان کی طرف سے قربانی  کے دنوں میں رقم یاکوئی  اورچیزصدقہ کرنے سے افضل وبہترقربانی کرناہے ، کیوں کہ حدیث شریف  میں ان دنوں میں سب سے زیادہ محبوب عمل جانورقربان کرنے کو قرار دیا گیا ہے ،جیسا کہ جامع ترمذی میں ہے حضورنبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’مَاعَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبّ اِلَى اللهِ مِنْ اِهْرَاقِ الدَّمِ، اِنَّها لَتَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَاَشْعَارِهَا وَاَظْلَافِهَا،وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ اَنْ يَقَعَ مِنَ الْاَرْضِ،فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا‘‘ترجمہ: دس(10) ذوالحجہ میں ابنِ آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانوربروزِ قیامت اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ تعالٰی کے ہا ں قبول ہوجاتا ہے لہٰذا اسے خوش دلی سے کرو۔(جامع ترمذی ،جلد4،صفحہ 83،مصطفى البابي الحلبي   )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم