مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:
Sar-5261
تاریخ اجراء: 07ربیع الاول1437ھ/07دسمبر 6
201 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
ہمارے علاقہ میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہے، مرکزی
مسجد میں عید کی نماز دیگر مساجد کی نسبت کچھ تاخیر
سے ہوتی ہے،ہمارے یہاں مقامی مدرسہ میں اجتماعی قربانی کا سلسلہ ہوتا
ہے،اگر قاری صاحبان جلدی عید کی نماز پڑھ کر ان افراد کی
قربانی کردیں جو مرکزی مسجد میں عید کی نماز
پڑھتے ہوں اور ابھی تک انہوں نے نماز عید نہ پڑھی ہو،تو قاری
صاحبان کا اس طرح کرنا کیسا ؟ایسا کرنے سے قربانی ہوگی یا
نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی
صورت میں جبکہ آپ کے ہاں متعدد جگہوں پر عید کی نماز ہوتی
ہے ،تو قاری صاحبان کا جلدی عید کی نماز پڑھ کر ان افراد(جو مرکزی مسجد میں عید
کی نماز پڑھتے ہیں اور انہوں نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی،
ان ) کی قربانی کر دینا جائز ہےاور ان افراد کی قربانی
بھی ہوجائے گی، کیونکہ جہاں متعدد جگہ عید کی نماز
ہوتی ہو ، وہاں پہلی جگہ نماز
ہوچکنے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں
کہ عیدگاہ میں نماز ہو جائے جب ہی قربانی کی جائے،
بلکہ کسی مسجد میں ہوگئی اور عیدگاہ میں نہ ہوئی
جب بھی ہوسکتی ہےجیسا کہ ردالمحتار میں ہے ” ولو
ضحى بعدما صلى أهل المسجد ولم يصل أهل الجبانة أجزأه استحسانا “یعنی:اگر مسجد والوں کی نماز کےبعد قربانی
کی اس حال میں کہ ابھی عید گاہ والوں نےنماز نہیں
پڑھی تھی ،تو استحسانا قربانی کرنا درست ہے۔)ردالمحتارمع الدر المختار،ج9،ص528،
مطبوعہ کوئٹہ(
یونہی
الجوہرة النيرة میں ہے:”تجوز صلاة العيد في
المصر في موضعين ويجوز أن يضحي بعدما صلى في أحد الموضعين استحسانا“ یعنی:نماز عید
شہر میں دو جگہوں پر جائز ہے اور دو جگہوں میں سے ایک میں
نماز پڑھنے کے بعد قربانی کرنا استحساناجائز ہے۔)الجوھرة النيرة،ج1،ص114، مطبوعہ ملتان(
صدرالشریعہ
مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃایک جگہ نماز
ہو جانے کے بعد قربانی کے درست ہونے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں”اگر
شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو ،تو پہلی
جگہ نماز ہوچکنے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضرور نہیں
کہ عیدگاہ میں نماز ہو جائے جب ہی قربانی کی جائے
،بلکہ کسی مسجد میں ہوگئی اور عیدگاہ میں نہ ہوئی
جب بھی ہوسکتی ہے۔“(بھارشریعت،حص15،ص337،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟