Bhains Ki Qurbani Se Mutaliq Quran o Hadees Ki Roshni Mein Tafsili Fatwa

بھینس کی قربانی سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی فتوی

مجیب:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-1743

تاریخ اجراء:17ذوالقعدہ1445ھ/26 مئی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بھینس  کی قربانی کا شرعا ً              کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث و کلامِ فقہاء    کی روشنی میں اس  کی قربانی کا جواز ثابت فرما دیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بھینس (BUFFALO)کی قربانی  کرنا بلا شک و شبہ جائز ہے ،کیونکہ بھینس،گائے(COW) ہی کی جنس (GENDER)میں سے ہے ، تو جس طرح گائے کی قربانی کرنا، جائز ہے ،یونہی بھینس کی قربانی کرنا بھی جائز ہے اور یہ بات قرآن وحدیث ، مفسّرین ،محدثین ،ائمہ لغت ،فقہاء و مجتہدین ،اجماعِ علما، بعض صحابہ و کبار تابعین  کےاقوال سے ثابت ہے۔ 

قرآن مجید سے دلائل

قربانی   کے لیے " بہیمۃ الانعام" (بے زبان چوپائیوں )  کا انتخاب کیا گیا:

   اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ  ترجمہ کنز الایمان :’’اور ہر امت کے لیے  ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اس کے دئیے ہوئے بے زبان چوپایوں پر۔“(پارہ 17 ،سورۃ الحج ،آیت34)

الْاَنْعَامِ  میں چار جوڑے (بھیڑ ،بکری ،اونٹ ،گائے  نر و مادہ )شامل ہیں:

   اس بارے میں قرآن مجید میں  ہے :﴿ وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّ فَرْشًا كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ  اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ  ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ  نَبِّـٴُـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ . وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ ترجمہ کنز الایمان :’’اور مویشی میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین پر بچھے،کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمہیں روزی دی اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔  آٹھ نر اور مادہ ایک جوڑا بھیڑ کا اور ایک جوڑ ابکری کا ،تم فرماؤ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہیں  کسی علم سے بتاؤ اگر تم سچے ہو ۔اور ایک جوڑا اونٹ کا اور ایک جوڑا گائے کا ۔(پارہ 8 ،سورۃالانعام ،آیت 142 تا 144)

بھینس بھی  گائے کی طرح"انعام " (آٹھ جانوروں)میں شامل ہے:

   چنانچہ تفسیر ابن ابی حاتم و  تفسیر در منثور میں ہے:”حدثنا أبي ثنا عبد الرحمن بن صالح العتكي ثنا حميد بن عبد الرحمن الرؤاسي عن حسن بن صالح عن ليث بن أبي سليم قال الجاموس والبختي  من الأزواج الثمانية ترجمہ :حضرت لیث بن  ابو سلیم سے مروی  ہے آپ فرماتے ہیں کہ  بھینس اور بختی اونٹ    ازواج  ثمانیہ (یعنی آٹھ نر اور مادہ ) میں سے ہیں۔(تفسیر در منثور ،جلد 3 ،صفحہ 371 ،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت) (تفسیر ابن ابی حاتم ،جلد 5 ،صفحہ 1403 ،مطبوعہ عرب شریف)

حدیث  پاک سے دلائل

احادیث میں گائے کے لیے "بقرۃ "  کا لفظ استعمال ہوا :

   سنن ابو داؤد میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: البقرۃ عن سبعۃ والجزور عن سبعۃ‘‘ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد  فرمایا:’’ (قربانی میں ) گائے سات کی طرف سے اور اونٹ (بھی ) سات کی طرف سے (کافی) ہے ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الضحایا ، باب فی البقر و الجزور عن کم تجزی، جلد 2، صفحہ 40،مطبوعہ  لاھور)

   صحیح مسلم میں بھی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں کہ” فامرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نشترک فی الابل والبقر کل سبعۃ منا فی بدنۃ“ ترجمہ: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا   کہ ہم اونٹ اور گائے میں شرکت کریں یعنی ہم میں سے ہر سات افراد ایک بدنہ میں شریک ہوں۔ (صحیح المسلم ،کتاب الحج  ، جلد 2، صفحہ 995،مطبوعہ  دار احیاء التراث العربی ،بیروت)

اور اہل لغت کے نزدیک بھینس   بھی "بقرۃ " یعنی گائے کی قسم  سے ہے:

   امام اللغت  علامہ ابن منظور افریقی (المتوفیٰ 711 ھ) اپنی کتاب "لسان العرب "میں لکھتے ہیں:” الجاموس نوع من البقر  ترجمہ: بھینس  گائے کی ایک قسم ہے۔   (لسان العرب ،جلد 2 ،صفحہ206 ،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ،بیروت)

   علامہ سید مرتضٰی حسینی زبیدی (المتوفیٰ 1205 ھ) اپنی کتاب"تاج العروس "میں لکھتےہیں:” الجاموس نوع من البقر  ترجمہ: بھینس  گائے کی ایک قسم ہے۔ (تاج العروس ،جلد 15 ،صفحہ 513 ،مطبوعہ دار الھدایہ)

   نیز لغت کی معتبر کتاب "المعجم الوسیط" میں ہے :”(الجاموس ) حیوان اھلی  من جنس البقر “ترجمہ: بھینس ایک پالتو جانور ہے، جو گائے کی جنس کے قبیل سے  ہے ۔(المعجم الوسیط ،جلد 1 ،صفحہ  134 ،مطبوعہ دار الدعوہ)

فقہائے احناف کے نزدیک  بھی بھینس گائے کی جنس  سے ہے  اور اس کی قربانی جائز ہے:

   ملک العلماء امام  علاء الدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی حنفی رحمہ اللہ (المتوفٰی587ھ) "بدائع الصنائع" میں فرماتے ہیں:”اما جنسہ فھو ان یکون من الاجناس الثلاثۃ: الغنم او الابل او البقر، ویدخل فی کل جنس نوعہ والذکر والانثی منہ والخصی والفحل لانطلاق اسم الجنس علی ذلک، والمعز نوع من الغنم، والجاموس نوع من البقر بدلیل انہ یضم ذلک الی الغنم والبقر فی باب الزکاۃ‘‘ترجمہ: بہر حال قربانی کے جانوروں کی جنس،تو اس کا ان تین جنسوں میں سے ہونا ضروری ہے:بکری، اونٹ  یا گائےاور ہر جنس میں اُس کی نوع،نر اور مادہ، خصی اور غیر خصی سب شامل ہیں، کیونکہ جنس کا اطلاق اِن سب پر ہوتا ہے۔بھیڑ،بکری کی اور بھینس، گائے کی قسم ہے،اِس دلیل کی بناء پر کہ انہیں ( یعنی بھیڑ اور بھینس کو) زکوۃ کے معاملے میں بکری اور گائے کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب التضحیہ، جلد4،صفحہ205،  مطبوعہ کوئٹہ)

   فقیہ النفس ابو المحاسن امام حسن بن منصور المعروف قاضی خان حنفی رحمہ اللہ(المتوفٰی 592 ھ) "فتاوٰی قاضی خان" میں فرماتے ہیں:”الاضحیۃ تجوز من اربع من الحیوان الضان والمعز والبقر والابل ذکورھا واناثھا وکذلک الجاموس لانّہ نوع من البقرالاھلی  ترجمہ: چار جانوروں کی قربانی  جائز ہے،بھیڑ، بکری ،گائے اوراونٹ ،چاہے نر ہوں یا مادہ  اور اسی طرح بھینس کی قربانی بھی جائز ہے،اس لیے کہ یہ پالتو گائے کی ایک قسم ہے۔(فتاوٰی قاضی خان ،جلد 3 ،فصل فیما یجوز فی الضحایا،صفحہ 234 ،مطبوعہ  دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

   شیخ الاسلام برہان الدین ابو الحسن علی بن ابو بکر المرغینانی حنفی رحمہ اللہ(المتوفیٰ593ھ)  اپنی کتاب "ہدایہ شریف "میں فرماتے ہیں:”(والاضحیۃ من الابل والبقر والغنم)ویدخل فی البقر الجاموس، لانہ من جنسہ‘‘ترجمہ: اونٹ،گائے اور بکری کی قربانی درست ہے  اور گائے کے تحت بھینس بھی داخل ہے، کیونکہ وہ اِسی کی جنس میں سے ہے۔(   الھدایہ ،کتاب الاضحیہ،جلد4،صفحہ449،مطبوعہ لاھور)

   شیخ الاسلام  اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضا خان رحمہ اللہ  (المتوفیٰ 1340ھ ) "فتاوٰی رضویہ شریف" میں فرماتے ہیں:”حقیقت یہ ہے کہ علماء کے نزدیک بھینس کا گائے  کی  ہی نوع  میں ہونا  ثابت ہوا ،تو انہوں نے کہا کہ قرآن کا لفظِ بقر بھینس کو شامل ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ،جلد20،صفحہ 401،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

یہی وجہ ہے کہ فقہائے  کرام زکوٰۃ کےباب میں بھینس کو گائے کی جنس شمار کرتے ہیں:

   علامہ ابو عبید قاسم بن سلام بغدادی (المتوفیٰ 224 ھ) اپنی کتاب"الاموال" میں جناب حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ  کے متعلق مروی  ایک روایت لکھتے ہیں : ” ان عمر بن عبد العزیز کتب ان تؤخذ صدقۃ الجوامیس  کما تؤخذ صدقۃ البقر    ترجمہ: حضرت عمر بن عبد العزیز  نے حکم لکھا کہ  جس  طرح گائے کی  زکوٰۃ  لی جاتی ہے ،بھینسوں کی  زکوٰۃ بھی اسی طرح لی جائے ۔(الاموال للقاسم بن سلام ،کتاب الصدقۃ واحکامھا ،جلد1 ،صفحہ 476 ،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)

   علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی  رحمہ اللہ(المتوفٰی1252 ھ) اپنی مایہ ناز تصنیف "ردالمحتار " میں فرماتے ہیں :” (و الجاموس) ھو نوع من البقر کما فی المغرب، فھو مثل البقر فی الزکاۃ والاضحیۃ والربا  ،ويكمل به نصاب البقر، وتؤخذ الزكاة من أغلبها، وعند الاستواء يؤخذ أعلى الأدنى وأدنى الأعلى ترجمہ : بھینس گائے کی نوع ہے جیسا کہ کتاب "مغرب" میں ہے   ،لہٰذا زکوٰۃ ،قربانی  اور سود  کے معاملے میں بھینس  گائے کی مثل ہے  اور گائے کا نصاب بھینس سے پورا کیا جائے گا ۔بھینس اور گائے میں سے جو زیادہ ہیں زکوٰۃ اسی میں سے لی جائے گی  ۔اگر دونوں برابر ہیں تو  زکوٰۃ میں وہ لیں گے جو ادنیٰ سے اچھا اور اعلیٰ سے کم ہو ۔  (رد المحتار علی الدر المختار ،جلد 2 ،کتاب الزکٰوۃ ،باب صدقۃ البقر ،صفحہ 280 ،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)

ائمہ مجتہدین  سے بھی یہی حکم  منقول ہے

   چنانچہ "المدونۃ"میں حضرت  سفیان  ثوری  و امام  مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:”ان الجوامیس من البقر   ترجمہ : بھینس  گائے  کی قسم سے ہے ۔ (المدونۃ ،کتاب الزکاۃ الثانی ،باب زکاۃ البقر ،جلد 1 ،صفحہ 355 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

   مصنّف ابنِ ابی شیبہ میں حضرت امام  حسن بصری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:” کان یقول : الجوامیس بمنزلۃ البقر ترجمہ: حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ بھینس (تمام احکامات میں )گائے کی طرح ہی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ  ،جلد4،صفحہ357، رقم:10839،مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

تمام مذاہب میں بھینس کی قربانی کا جواز  متفق علیہ ہے :

   موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:”(الشرط الاول) وھو متفق علیہ بین المذاھب ان تکون من الانعام وھی الابل عرابا  کانت او بخاتی والبقرۃ الاھلیۃ منھا الجوامیس “ ترجمہ: قربانی کی پہلی شرط  وہ ہے جو تمام مذاہب میں متفق علیہ ہے  وہ یہ ہے کہ قربانی کا جانور اَنعام(چوپایہ ) کی قسم سے ہو  اور وہ اونٹ ہے چاہے عربی ہو یا بخاتی اور گھریلو گائے ہے  اور بھینس بھی گائے کی قسم سے ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ کویتیہ ،جلد 5 ،صفحہ 81 مطبوعہ دار السلاسل ،کویت)

تمام  علماء کا اجماع ہے  کہ بھینس تمام احکامات میں گائے کے حکم میں  ہے:

   امام ابو بکر محمد بن منذر  نیشا پوری(المتوفیٰ 319 ھ) اپنی کتاب "الاجماع " میں لکھتے ہیں:” اجمعوا علیٰ ان حکم الجوامیس حکم البقر“ ترجمہ : علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینسوں کا حکم وہی ہے جو گائے کا ہے ۔(الاجماع ،کتاب الزکٰوۃ ،صفحہ 54 ،مطبوعہ دار الآثار للنشر والتوزیع ،مصر)

بھینس کی قربانی کے جواز میں کسی  کا کوئی اختلاف نہیں ہے:

   "مسائل الامام احمد "نامی کتاب میں حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے بھینس کی قربانی کے متعلق سوال کیاگیا :”الجواميس تجزئ عن سبعة؟قال: لااعرف خلاف هذا “ ترجمہ:بھینس (قربانی میں)سات افراد کی طرف سے کفایت کر جائے گی ؟ آپ نے فرمایا :میں اس کے جواز کے متعلق  کسی کااختلاف نہیں جانتا۔ (مسائل الامام احمد ،جزء 8 ،صفحہ 4027 ،مسئلہ 2865 ،مطبوعہ مدینۃ المنورۃ)

   ابو محمد عبد الله بن احمد بن محمد بن قدامہ حنبلی (المتوفیٰ 620 ھ) اپنی کتاب "المغنی" میں لکھتے ہیں:”(الجواميس كغيرها من البقر) لا خلاف في هذا نعلمه. وقال ابن المنذر: أجمع كل من يحفظ عنه من أهل العلم على هذا، ولأن الجواميس من أنواع البقر، كما أن البخاتي من أنواع الإبل“ ترجمہ : بھینس اپنے دوسرے افراد کی طرح گائے کی جنس سے ہیں ،اس (بھینس کا گائے کی جنس نہ ہونے کے)بارے میں ہمیں کسی شخص کا اختلاف بھی معلوم نہیں۔ اور علامہ ابن منذر کہتے ہیں کہ: وہ تمام اہل علم جن سے  اس بارے میں کچھ محفوظ و مروی ہے  ان سب کا اس پر  اجماع ہے  اور  اس لیے کہ  جس طرح بختی اونٹ ،اونٹوں کی انواع میں سے ہے، یونہی بھینس گائے کی انواع میں سے  ہے ۔(المغنی لابن قدامہ ،جلد 2 ،کتاب الزکٰوۃ ،باب صدقۃ البقر ،صفحہ 444 ،مطبوعہ مکتبہ قاہرۃ)

قربانی میں بھینس کےگائے کی طرح  سات حصص کے متعلق روایت:

   مسند الفردوس میں  جناب مولائے کائنات  حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےکہ”الجاموس تجزي عن سبعة في الأضحية ترجمہ:  بھینس قربانی میں سات افراد کی طرف سے کافی ہے۔ (الفردوس بماثور الخطاب ،جلد 2 ،باب الجیم ،صفحہ 124 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم