Beron e Mulk Wale Ki Qurbani Pakistan Ki Jaye To Kaha Ke Waqt Ka Atibar Hoga?

بیرونِ ملک والے کی قربانی پاکستان کی جائے ، تو کہاں کے وقت کا اعتبار ہوگا ؟

مجیب:عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6358

تاریخ اجراء:28صفر المظفر 1441ھ 28اکتوبر 2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص بیرون ملک ہے، پاکستان میں اس نے قربانی کے لیے رقم بھیجی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ نماز عید پڑھ کر پاکستان میں اس آدمی کے جانور کی قربانی کر سکتے ہیں؟ حالانکہ بیرون ملک میں ابھی دس ذوالحج کی صبح صادق نہیں ہوئی؟ وضاحت فرما دیں۔سائل: غلام ربانی  عطاری(کوٹلی، آزاد کشمیر)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں بیرون ملک والا شخص جہاں رہتا ہے ، اگر وہاں ابھی تک دس ذوالحج کی صبح صادق طلوع نہیں ہوئی، تو اس کی قربانی پاکستان میں کرنے سے واجب قربانی ادا نہیں ہو گی، کیونکہ قربانی کے وجوب کا سبب وقت ہے  اور وہ وقت دس ذوالحج کی صبح صادق طلوع ہونے سے شروع ہوتا ہے،لہذا  دس ذوالحج کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے قربانی واجب ہی نہیں ہوئی، لہذا وجوب سے پہلے ہی کی گئی قربانی سے، بعد میں واجب ہونے والی قربانی ادا نہیں ہو گی، اگرچہ پاکستان میں دیہات میں قربانی کرنے کی صورت میں صبح صادق طلوع ہو چکی ہو، یا شہر میں قربانی کرنے کی صورت میں یہاں شہر کے کسی مقام پر عید کی نماز ہو چکی ہو۔ البتہ بیرون ملک والا شخص جہاں موجود ہے، اگر وہاں دس ذوالحج کی صبح صادق کا وقت ہو گیا ہے، تو اب  پاکستان کے دیہات میں قربانی کرنے کی صورت میں یہاں دس ذوالحجۃ الحرام کو طلوع فجر کے بعد اور شہر میں قربانی کرنے کی صورت میں یہاں اس شہر کے کسی مقام پر نماز عید ہو چکنے کے بعدقربانی کی ، تو ادا ہو جائے گی اگرچہ جس کی طرف سے قربانی  کی جا رہی  ہے، جہاں  وہ  شخص موجود ہے ، وہاں  ابھی  تک  عید کی نماز  نہ ہوئی ہو،کیونکہ اس میں قربانی والی جگہ کا اعتبار ہے، قربانی کرنے والے کے شہر کا اعتبار نہیں ہے۔

   صاحب درمختار قربانی کے وجوب کے سبب کو ذکر کرتے ہوئے  فرماتے ہیں:”و سببھا الوقت و ھو أیام النحر“ اور اس کے وجوب کا سبب وقت ہےاور وہ ایام النحر  ہیں۔

   اس عبارت کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”ذکر فی النھایۃ أن سبب وجوب الأضحیۃ و وصف القدرۃ فیھا بأنھا ممکنۃ أو میسرۃ لم یذکر لا فی أصول الفقہ و لا فی فروعہ، ثم حقق أن السبب ھو الوقت، لأن السبب إنما یعرف بنسبۃ الحکم إلیہ و تعلقہ بہ، إذ الأصل فی إضافۃ الشئ إلی الشئ أن یکون سبباً “ ترجمہ : نہایہ میں ذکر کیا ہے کہ قربانی کے وجوب کا سبب اور اس میں ممکن اور آسان ہونے کے اعتبار سے  قدرت کا وصف ذکر نہیں کیا گیا، نہ اصول فقہ میں اور نہ ہی اس کی فروعات میں۔ پھر انہوں نے تحقیق فرمائی کہ اس کے وجوب کا سبب وقت ہے، اس لیے کہ سبب کی پہچان، اس کی طرف حکم کی نسبت اور اس کے ساتھ حکم کے تعلق سے ہوتی ہے، اس لیے کہ ایک شے کی دوسری شے کی طرف اضافت میں اصل یہی ہے کہ وہ دوسری شے کے لیے سبب ہو۔(الدر المختار مع رد المحتار، جلد 9 ص 520، مطبوعہ  پشاور)

   درمختار مع ردالمحتار میں ہے:’’أول وقتھا بعد الصلوۃ إن ذبح فی مصر وبعد طلوع فجر یوم النحر إن ذبح فی غیرہ والمعتبر مکان الأضحیۃ لا مکان من علیہ‘‘ یعنی قربانی کا وقت نماز کے بعد ہے، اگر شہر میں کرے اور اگر گاؤں میں ذبح کرنی ہو تو عید کے روز صبح طلوع ہونے کے بعد اور قربانی میں ذبح کرنے کی جگہ معتبر ہے، قربانی کرنے والے کی جگہ معتبر نہیں۔(الدر المختار مع ردالمحتار، جلد9،ص 529، مطبوعہ پشاور)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’إن الرجل إذا کان فی مصر و أھلہ فی مصر آخر فکتب إلیھم لیضحوا عنہ فإنہ یعتبر مکان التضحیۃ فینبغی أن یضحوا  عنہ  بعد     فراغ      الإمام   من صلاتہ فی المصر  الذی   یضحی  عنہ  فیہ‘‘  یعنی  اگرایک شخص ایک شہر میں  ہو اور اس کے  اہل  دوسرے  شہر میں ہوں،وہ اپنے گھر والوں کو کہےکہ میری طرف سے قربانی کریں، توبے شک اس میں قر بانی والی جگہ کا اعتبار کیا جائے  گا، یعنی اس کے اہل کے لیے اجازت ہو گی کہ وہ جس شہر میں قربانی کر رہے ہیں، اس شہر میں  امام کے نماز عید سے فارغ ہونے کے بعد، اس شخص کی طرف سے قربانی کر دیں۔(فتاوی عالمگیری، جلد5، ص 366،مطبوعہ کراچی)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ  مولانا مفتی محمد  امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”قربانی واجب ہونے کا سبب وقت ہے، جب وہ وقت آیا اور شرائط وجوب پائے گئے، قربانی واجب ہو گئی۔“(بھار شریعت، جلد3، حصہ 15،ص333مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے۔ “  (بھار شریعت، جلد3، حصہ 15،ص336 ، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید ایک اور جگہ فرماتے ہیں:’’یہ جو شہر اور دیہات کا فرق بتایا گیاہے، یہ مقام قربانی کے لحاظ سے ہے، قربانی کرنے والے کے اعتبار سے نہیں، یعنی دیہا ت میں قربانی ہو تو وہ وقت ہے ،اگرچہ قربانی کرنے والا شہر میں ہو اور شہر میں ہو تو نماز کے بعد ہو،اگرچہ جس کی طرف سے قربانی ہو وہ دیہات میں ہو۔ ‘‘(بھار شریعت، جلد3، حصہ 15،ص337مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم