Bakri Ki Umar Ziyada Hone Ki Wjah Se Doodh Khushk Ho Gaya To Qurbani Ka Hukum?

بکری کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے دودھ خشک ہوگیا ، تو قربانی کا حکم

مجیب:ابومحمدمفتی علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-11691

تاریخ اجراء:04ذوالحجۃ الحرام1442ھ/15جولائی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس بکری کا دودھ زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے خشک ہو گیا ہو ، کیا اس کی قربانی ہو جائے گی؟ جبکہ وہ صحت مند بھی ہے ، کوئی بیماری وغیرہ بھی نہیں ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ایسی بکری جس کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے دودھ خشک ہو گیا ، اس کی قربانی کراہت کے ساتھ جائز ہے ۔

     جواب کی تفصیل جاننے سے پہلے یہ بات جان لینا مفید ہے کہ جانوروں میں دودھ اترنے کا تعلق بچہ پیدا ہونے کے ساتھ ہے ، جب تک بچہ پیدا نہیں ہوتا ، دودھ نہیں اترتا ۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد مخصوص وقت تک دودھ آتا ہے، اس کے بعد دودھ اترنا  بند ہو جاتا ہے،پھر دوبارہ بچہ پیدا ہونے پر وہی جانور دودھ دینے لگتا ہے ۔ دو بچوں کی پیدائش کے درمیانی وقفہ میں مخصوص وقت تک  دودھ نہ آنا معمول کی فطری  بات ہے ۔نیز ہر جانور مخصوص عمر تک ہی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مخصوص عمر گزرنے کے بعدجانور  بچہ پیدا کرنے پر قادر نہیں رہتا اور اس کا دودھ بھی خشک ہو جاتا ہے ، لہٰذا دودھ خشک ہونے کا سبب صرف بیماری ہی نہیں ہوتی ، بلکہ فطری تقاضے بھی ہوتے ہیں  ۔

     مذکورہ بالا گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ فقہائےکرام نے دودھ نہ دینے کا مسئلہ چند صورتوں میں بیان کیا ہے :

     1.جس اونٹنی کے تھن کسی طریقےسے خشک کر دئیے تاکہ وہ طاقتور ہو جائے ، اس کی قربانی جائز نہیں۔

     2.جس کو کسی بیماری کی وجہ سے داغا گیا اور دودھ خشک ہو گیا ، اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔

     3.جس کے تھنوں کو کسی بیماری نے خشک کر دیا ، اس کی قربانی بھی جائز نہیں ۔

     4.جس کا دودھ بغیر کسی بیماری کے نہیں اترتا ، اس کی قربانی جائز ہے ۔

     ان مسائل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کوئی بیماری یا خارجی سبب دودھ خشک کرنے کا سبب بنا ، وہاں قربانی جائز نہیں اور جہاں دودھ خشک کرنےکا کوئی خارجی سبب موجود نہیں ،وہاں قربانی جائز ہے ۔صرف عمر زیادہ ہونا بھی بیماری کو مستلزم نہیں ، لہٰذا جس بکری کی عمر زیادہ ہو گئی اور دودھ خشک کرنے کا کوئی خارجی سبب بھی نہیں پایا گیا تو اس کا دودھ نہ دینا مانع قربانی نہیں ، اس کی قربانی بھی جائز ہو گی۔

     زیر بحث مسئلہ میں جو موقف اپنایا، اس کی تائید فقہاء کے بیان کردہ اس جزئیہ سے بھی ہوتی ہے جو کتب فقہ میں بیان ہوا  کہ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے بکری بچہ پیدا نہیں کر سکتی ، تو اس کی قربانی جائز ہے ۔

     یہاں یہ چیز بھی اہم ہے کہ بچہ دینے سے عاجز  بکری کی قربانی کا جواز ہمارےاس مسئلہ پر لکھے گئے جواب کی واضح تائید ہے ، کیونکہ جو جانور زیادتی عمر کے سبب بچہ پیدا نہیں کر سکتا ، عادتاً وہ دودھ  بھی نہیں دے سکتا ۔البتہ قربانی کے لیے مستحب ہے کہ بالکل بے عیب جانور کو ذبح کیا جائے ، معمولی عیب ہو ، تو اس کی قربانی کراہت  تنزیہی  کے ساتھ جائز ہوتی ہے ۔

     خلاصہ یہ کہ ایسی بکری جس کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے دودھ خشک ہو گیا ، اس کی قربانی کراہت کے ساتھ جائز ہے ۔

     کسی خارجی سبب سے دودھ نہ آتا ہو تو قربانی ناجائز ہے چنانچہ درمختار میں ہے:”ولا المصرمۃ اطباوھا وھی التی عولجت حتی انقطع لبنھا“ترجمہ:نہ ہی وہ بکری (جائز ہے ) جس کا علاج کیا گیا یہاں تک کہ دودھ خشک ہو گیا(تو قربانی نہیں ہوگی)۔

     بغیر کسی بیماری کے دودھ نہ آئے تو اس کی قربانی جائز ہے ، چنانچہ مذکورہ بالا عبارت  کے تحت ردالمحتار میں ہے:”فی القاموس ھی ناقۃ یقطع اطباوھا لیبس الاحلیل فلا یخرج اللبن لیکون اقوی لھا وقد یکون من انقطاع اللبن بان یصیب ضرعھا شئ فیکوی فینقطع لبنھا۔۔۔ وذکر فیھا جواز التی لا ینزل لھا لبن من غیر علۃ“ترجمہ:قاموس میں ہے یہ وہ اونٹنی ہے جس کے تھنوں کو کاٹ دیا ہو تاکہ دودھ اترنے کی جگہ خشک ہو جائے اور دودھ نہ نکلے اور اونٹنی طاقتور ہو جائے ، کبھی تھن میں بیماری کی وجہ سے اسے داغا جاتا ہے اور دودھ ختم ہو جاتا ہے ، خلاصہ میں اس بکری کی قربانی کا جواز ذکر کیا جس کو بغیر کسی بیماری کے دودھ نہ اترتا ہو۔ (درمختار مع ردالمحتار ، کتاب الاضحیۃ ، ج9، ص537، کوئٹہ)

     تبیین الحقائق میں ہے :”ولا تجوز ۔۔۔ ولا الجداء، وهي التي يبس ضرعها“ترجمہ:جداء یعنی وہ مادہ جس کے تھن خشک ہو گئے ہوں ، ان کی قربانی جائز نہیں۔

     اس کے تحت حاشیہ شلبی میں ہے:”قوله ولا الجداء الجداء بالجيم ما لا لبن لها من كل حلوبة لآفة أيبست ضرعها“ترجمہ: جداء جیم کے ساتھ ، ہر دودھ والا جانور جس کے تھنوں کو بیماری نے خشک کر دیا ہو۔ (تبیین الحقائق ، کتاب الاضحیۃ ، ج6، ص6، ملتان)

     بڑی عمر کی وجہ سے بچہ پیدا کرنے سے عاجز جانور کی قربانی جائز ہے ، یونہی بغیر بیماری کے دودھ نہ اترتا ہو ، تو اس کی قربانی بھی جائز ہے ، چنانچہ لسان الحکام ، فتاوی ہندیہ اور خلاصۃ الفتاوی میں ہے:واللفظ للآخر وفی نظم الزندویسی خمسۃ عشر من الآفات لا یمنع جواز الاضحیۃ ۔۔۔۔ والعاجزۃ عن الولادۃ لکبر سنھا والتی بھا کی  والتی لا ینزلھا لبن من غیر علۃ“ترجمہ:علامہ  زندویسی کی نظم میں ہے کہ پندرہ قسم کے عیوب قربانی سے مانع نہیں ۔۔۔زیادہ عمر کی وجہ سے بچہ نہ دے سکتی ہو اور جسے داغا گیا ہو اور  جس کو بغیر کسی بیماری کے دودھ نہ آتا ہو(ان کی قربانی جائز ہے )(خلاصۃ الفتاوی ، کتاب الاضحیۃ ، الفصل الخامس ، ج4، ص320، کوئٹہ) (لسان الحکام ، الفصل الثانی والعشرون ، الفصل الثانی ، ص388، البابی الحلبی)(فتاوی هندیۃ ، کتاب الاضحیۃ ، الباب الخامس ، ج5، ص297، دار الفکر)

     اسی سے متعلق ردالمحتار میں ہے:”تجوز التضحية بالمجبوب العاجز عن الجماع، والتي بها سعال، والعاجزة عن الولادة لكبر  سنها “ ترجمہ: مقطوع الذکر بکرا جو جماع سے عاجز ہو ، جس بکری کو کھانسی ہو ، اور جو بکری عمر  زیادہ ہونے کی بنا پر بچہ پیدا کرنے سے عاجز ہو ، ان کی قربانی جائز ہے ۔(ردالمحتار ، کتاب الاضحیۃ ، ج9، ص538، کوئٹہ)

     بہار شریعت میں ہے:”جس کے دانت نہ ہوں یاجس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں اوس کی قربانی ناجائز ہے۔۔۔۔یا علاج کے ذریعہ اوس کا دودھ خشک کر دیا ہو ۔۔۔ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔“  (بھار شریعت،ج 3،ص341،مکتبۃ المدینہ)

     قربانی کا جانور ہر قسم کے عیب سے پا ک ہونا چاہیے، چنانچہ ردالمحتار میں ہے: واعلم أن الكل لا يخلو عن عيب، والمستحب أن يكون سليما عن العيوب الظاهرة، فما جوز ههنا جوز مع الكراهة “ترجمہ:تو جان لے کہ  تمام جانور عیب سے خالی نہیں ہوتے او رمستحب یہ ہےکہ جانور تمام ظاہری عیوب سے پاک ہو ،تو جسے یہاں جائز قرار دیا ہے وہ کراہت کے ساتھ جائز ہے ۔(ردالمحتار، ج9،ص536، کوئٹہ)

     بہار شریعت میں ہے:”قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہوناچاہیے اور تھوڑا سا عیب ہوتو قربانی ہو جائےگی مگر مکروہ  ہو گی “(بھار شریعت، ج3،ص340، مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم