Bachon Ki Shadi Ke Liye Rakhe Hue Plot Par Qurbani Ka Hukum

بچوں کی شادی کے لئے رکھے ہوئے پلاٹ پر قربانی کا حکم

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2790

تاریخ اجراء: 06ذوالحجۃالحرام1445 ھ/13جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں ہر سال قربانی کیا کرتا تھا، لیکن اس   سال ذرا مجھ پر قرضہ چڑھا ہوا ہے، تو اتنی گنجائش نہیں کہ میں قربانی کا حصہ لے سکوں ،البتہ دو پلاٹ میرے پاس ہیں  جو کہ میں  نے اپنے بچوں کی شادی کے لیے رکھے ہیں،مگر کوئی جمع  پونجی نہیں  ہے،جب بچوں کی شادیاں ہوں گی ،تو ان پلاٹ کو بیچ کر شادی وغیرہ  کے خرچے میں اس پلاٹ کی رقم صرف کروں  گا ، اب کیا اس صورت میں  مجھ پر قربانی  واجب ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قربانی واجب ہونے کیلئے نقد رقم یا سونا،چاندی ہونا  ہی ضروری نہیں ،اگر کسی کے پاس سونا،چاندی  یا  کرنسی  نہ بھی  ہولیکن اُس کے پاس حاجتِ اصلیہ (یعنی جن چیزوں کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہوتا ہے ، جیسے رہنے کا مکان ، پہننے کے کپڑے ، کھانے کے لیے ضروری راشن ، ضرورت کی سواری ، گھریلو  استعمال کا ضروری سامان وغیرہ)سے  زائد کوئی ایسی چیز ہوجس کی قیمت  ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچے تو  اُس پر بھی قربانی واجب   ہوتی ہے۔پوچھی گئی صورت میں  جو   پلاٹ آپ نے بچوں کی شادی میں خرچ کرنے کیلئے رکھے ہیں، تو ظاہر ہے کہ   یہ  حاجتِ اصلیہ  میں شمار نہیں ہوں گے، لہذا اگر قرض اور حاجت اصلیہ کو نکال کر موجودہ    پلاٹوں  کی قیمت  ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچے،یا اگر آپ کے پاس کچھ سونا چاندی بھی   موجود ہوتو  اس کے ساتھ مل کر ،یا اگر  کوئی اضافی سامان حاجت سے زائد موجود ہو تو اس کے ساتھ مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچے تو  اس صورت میں  آپ پر ضرور قربانی واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔قربانی واجب ہونے کی صورت میں اب    آپ چا ہیں  تو قرض لے کر قربانی کریں،یا  اپنی کوئی بھی   چیز   یا   پلاٹ  بیچ کراس رقم سے قربانی کرلیں، بہرصورت قربانی  تو  آپ نے   کرنا   ہی  ہوگی،  نہ کرنے کی صورت میں آپ گنہگار ہوں گے ۔

   قربانی کے نصاب سے متعلق،بدائع الصنائع میں ہے:” فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر “ ترجمہ: (قربانی واجب ہونے کیلئے) مالداری کااعتبارضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم(یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی)یابیس دینار(یعنی ساڑھے سات تولہ سونا)ہو یا(حاجت اصلیہ جیسے) رہنے کا گھر،گھریلو خانہ داری کے سامان، کپڑے، خادم ، گھوڑا ، ہتھیاراوروہ اشیاء جن کے بغیرگزارہ نہ ہو،کے علاوہ کوئی ایسی چیزہو جس کی قیمت اِس(یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے )تک پہنچتی ہو،(تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے)اوریہ ہی صدقہ فطرکانصاب ہے۔     (بدائع الصنائع،جلد6،کتاب التضحیۃ، صفحہ283،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کےسوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ غنی ہے اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ، ان کے سوا جو چیزیں ہوں ، وہ حاجت سے زائد ہیں۔“(بہارِشریعت،جلد3،حصہ15،صفحہ333،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

   حاجت سے زائد مکا ن جب  خود یا دوسرے مال سے مل کر نصاب کو  پہنچے تو قربانی واجب ہوگی، جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے  فتاویٰ رضویہ میں سوال ہوا کہ  اگر زید کے پاس مکان سکونت کے علاوہ دو ایک اور (مکان )ہوں تو اس پر قربانی واجب ہے یانہیں؟

   آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا :’’ واجب ہے جبکہ وہ مکان تنہا یا  اس کے اور مال سے کہ حاجت اصلیہ سے زائد ہومل کر چھپن روپے کی قیمت کو پہنچیں، اگر چہ مکانوں کو کرایہ پر چلاتاہو، یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہوبلکہ مکان سکونت  اتنا بڑا ہے کہ اس کا  ایک حصہ  اس کے جاڑے گرمی کی سکونت کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصہ حاجت سے زائد ہو اور اس کی قیمت تنہا یا اسی قسم کے مال سے مل کر نصاب تک پہنچے جب بھی قربانی واجب ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ،جلد 20،صفحہ 361، رضافاونڈیشن ، لاھور)

   قربانی کیلئے  جب نقد رقم نہ ہو،تو قرض لے کریا کوئی چیز بیچ کر قربانی کرنا ہوگی،جیسا کہ فتاوی امجدیہ میں ہے:’’اگر قربانی  اس پر واجب ہے اور اس وقت اس کےپاس روپیہ  نہیں، تو قرض لے کر  یا کوئی  چیز  فروخت  کر کے قربانی کا جانور حا صل کرے   اور قربانی کرے‘‘۔(فتاوی امجدیہ ،حصہ 3،صفحہ  315،مکتبہ رضویہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم