Aqeeqe Ke Janwar Me Pichle Saal Ki Qaza Qurbani ka Hissa Shamil Karna Kaisa?

عقیقے کے جانور میں قضا  قربانی کا حصہ  شامل کر نا کیسا ؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-2390

تاریخ اجراء: 23جمادی الاولیٰ1443ھ/28دسمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ میرا ایک بیٹا  اور ایک بیٹی ہے جب کہ میرے بھائی کی تین بیٹیاں ہیں۔ان کے عقیقے کے لیے ہم ایک گائے خریدنا چاہتے ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ میں اس میں اپنی  سابقہ ایک قضا قربانی کا حصہ بھی شامل کرکے سات حصے مکمل کرلوں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا عقیقے کےجانور میں قضا قربانی کا حصہ شامل کر سکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں آپ عقیقے کےلیے خریدے گئے جانور میں قضا قربانی کا حصہ شامل نہیں کر سکتے، کیونکہ جس پر قربانی واجب ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو  اب اس پربطورقضا لازم ہے کہ وہ ایک متوسط بکری  یا اس کی قیمت صدقہ کرے،جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کے دن گزر جانے کی وجہ سے  اس کے حق میں شریعت کا حکم تبدیل ہو چکا ہے، اب اس کے لیےجانور ذبح کرنے کی بجائے زندہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرنے کا حکم ہے۔پھراگر کسی نے صدقہ کرنے کی بجائے جانور کو ذبح کر دیا، تب بھی  وہ برئ الذمہ نہیں ہوگا ، بلکہ اب بھی اس کے لیے یہی حکم ہوگا کہ ذبح شدہ جانور کا گوشت بھی صدقہ کرے اورذبح کی وجہ سے قیمت میں واقع ہونے والی کمی کے حساب سے  رقم بھی صدقہ کرے۔  چونکہ ایسے شخص کو صدقہ کرنا واجب ہے، اس لیے یہ جانور یا اس کی قیمت وغیرہ ان لوگوں کو ہی دے سکتے ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں، خود بھی نہیں کھا سکتے، اگر کھائیں گے، تو اس کا بھی تاوان دینا لازم ہوگا۔لہذا آپ عقیقے کے  جانور میں قضا قربانی کا حصہ شامل نہیں کر سکتے، اس کےلیے آپ کو الگ سے متوسط درجے کی بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ہوگی۔نیزقربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کرنا چونکہ گناہ ہے، لہذا آپ اس گناہ سے توبہ بھی کریں۔

صاحب نصاب شخص اگرقربانی کےدنوں میں قربانی نہ کرے، تو اب اس کےلیے ایک متوسط بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے۔جیسا کہ درمختار میں ہے:”(وتصدق بقیمتھا غنی  شراھا او لا) لتعلقھا بذمتہ شراھا او لا فالمراد قیمۃ شاۃ تجزی فیھا“ یعنی قربانی  قضا ہونے کی صورت میں غنی ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے گا، چاہے اس نے جانور خریدا ہو یا نہ خریدا ہو کیونکہ اب یہ اس کے ذمے لازم ہو گئی ،چاہے اس نے جانور خریدا ہو یا نہ خریدا ہو اور قیمت سے مراد متوسط بکری کی قیمت ہے۔(الدرالمختارمع رد المحتار، جلد9، صفحہ 533،مطبوعہ کوئٹہ)

     اگر قربانی قضا ہو جائے، تو اس کی جگہ قیمت صدقہ کی جاتی ہے۔ جیسا کہ اصول فقہ کی معروف کتاب مختصر المنار میں ہے: ”التصدق بالقیمۃ عند فوات ایام التضحیۃ“ یعنی قربانی قضا ہونے کی صورت میں اس کی قیمت صدقہ کرنا ہوتی ہے۔(مختصر المنار متن نورالانوار، جلد1،صفحہ144، مطبوعہ صادق آباد)

     اس مسئلے کے تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”واشار المصنف بالقیمۃ الی ان التصدق بالعین جائز بالاولیٰ لانہ الاصل والقیمۃ مثلھاکما فی المحیط“ یعنی مصنف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قیمت کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بکری صدقہ کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہے، کیونکہ یہی اصل ہے اور قیمت اس کی مثل ہے۔(فتح الغفار، جلد1، صفحہ54،مطبوعہ مصر)

     اسی مسئلے کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”واشار بالقیمۃ الی ان الاراقۃ بعدایامھا  لا تکفیہ فلو وجب علیہ التصدق بعین الشاۃ فلم یتصدق بھا ولکن ذبحھا یتصدق بلحمھا ویجزیہ ذلک ان لم ینقصھا اللحم وان نقصھاتصدق باللحم وقیمۃ النقصان ولا یاکل منھا فان اکل تصدق بقیمتہ“ یعنی مصنف  نے قیمت صدقہ کرنے کا حکم بیان کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ قربانی قضا ہونے کی صورت میں فقط جانور ذبح کردینا کافی نہیں ہے۔ لہذا جب اس پر صدقہ کرناواجب ہوا اور اس نے صدقہ نہ کیا بلکہ بکری کو ذبح کر دیا، تو اب اس کا گوشت صدقہ کرے۔ گوشت صدقہ کرنا بھی اس وقت کفایت کرے گا، جب ذبح سے گوشت کی قیمت میں کمی واقع نہ ہو۔ اگرذبح کرنے سے قیمت میں کمی واقع ہوگئی، تو اب گوشت بھی صدقہ کرے گا اور کم ہونے والی قیمت بھی صدقہ کرے گا۔نیز اس گوشت میں سے کچھ بھی کھا نہیں سکتا، اگرکھائے گا، تو اس کے مطابق قیمت صدقہ کرے گا۔(فتح الغفار، جلد1، صفحہ54، مطبوعہ مصر)

     جس پرسابقہ قربانی واجب ہو اوروہ جانور ذبح کر دے، تو اب اس کا گوشت اور قیمت میں کمی واقع ہونے کی صورت میں اتنی رقم صدقہ کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ منت ماننے والا شخص اگر جانور کو ذبح کر دے، تو وہ اس میں خود نہیں کھا سکتا، بلکہ کھانے کی صورت میں اس کا نقصان پورا کرنا لازم ہے۔ جیسا کہ درمختار  مع ردالمحتار میں ہے: ”(ولو ذبحھا تصدق بلحمھا ولو نقصھا تصدق بقیمۃ النقصان ایضا ولا یاکل الناذر منھا فان اکل تصدق بقیمۃ ما اکل) واقول الناذر لیس بقید لان الکلام فیما اذا مضی وقتھا  ووجب علیہ التصدق بھا حیۃ او بقیمتھا ولذا لو ذبحھا ونقصھا یضمن النقصان“ یعنی (قربانی قضا ہونے کی صورت میں ۔ مترجم) اگر کسی نے جانور ذبح کر دیا، تو اب اس کا گوشت صدقہ کرے۔ اگر گوشت کی قیمت میں کمی واقع ہو جائے، تو اس حساب سے رقم بھی صدقہ کرے گا نیز یہ کہ منت ماننے والا خود اس میں کچھ نہیں کھا سکتا، اگر کھائے، تو  اتنی قیمت صدقہ کرے گا۔ (علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں۔ مترجم) کہ میں کہتا ہوں یہ حکم منت والے کے ساتھ خاص نہیں ،کیونکہ گفتگو اس شخص کے متعلق ہو رہی ہے، جس پر  قربانی کا وقت گزر گیا اوراس پر زندہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہو چکا۔ اسی وجہ سے اگر اس نے ذبح کر دیا، تو نقصان کا تاوان دے گا۔(الدرالمختار  مع ردالمحتار،جلد9، صفحہ532، مطبوعہ کوئٹہ)

     اس عبارت کے تحت جدالممتار میں ہے: ”بل کذلک الحکم فی کل ما وجب التصدق بہ“ یعنی یہی حکم ہر اس شخص کےلیے ہے، جس پر صدقہ واجب ہو چکا ہو۔(جدالممتار، جلد6، صفحہ452، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

     فتاوی فقیہ ملت میں سوال ہوا: ”زید کو اپنے مالک نصاب ہونے کا علم ہوا، تو قضا شدہ قربانی کے ادا کی کیا صورت ہوگی؟“اس کا جواب دیتے مفتی صاحب نے ارشاد فرمایا: ”جتنے سال کی قربانیاں قضا ہوئی ہیں، ان کے ادا کی صورت یہ ہے کہ ہر سال کے عوض ایک اوسط  درجہ کا بکرا یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔“(فتاوی فقیہ ملت، جلد2، صفحہ248، شبیر برادرز، لاھور)

     قربانی قضا ہو جائے، تو اب جانور ذبح نہیں کر سکتے، بلکہ متوسط بکری یا اس کی  قیمت صدقہ کرنا ہوگی۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ” ایامِ نحر گزر گئے اور جس پر قربانی واجب تھی اوس نے نہیں کی ہے، تو قربانی فوت ہوگئی اب نہیں ہوسکتی۔پھر اگر اوس نے قربانی کا جانور معین کر رکھا ہے، مثلاً: معین جانور کے قربانی کی منت مان لی ہے، وہ شخص غنی ہو یا فقیر بہرصورت اوسی معین جانور کو زندہ صدقہ کرے اور اگر ذبح کر ڈالا تو سارا گوشت صدقہ کرے اوس میں سے کچھ نہ کھائے اور اگر کچھ کھا لیا ہے ،تو جتنا کھایا ہے اوس کی قیمت صدقہ کرے اور اگر ذبح کیے ہوئے جانور کی قیمت زندہ جانور سے کچھ کم ہے ،تو جتنی کمی ہے اوسے بھی صدقہ کرے۔۔۔ غنی نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا ہے، تو وہی جانور صدقہ کر دے اور ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو مذکور ہوا اور خریدا نہ ہو تو بکری کی قیمت صدقہ کرے۔(بھار شریعت، جلد3، حصہ15، صفحہ338، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم