مجیب: مفتی ابوالحسن محمد
ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:Jtl-0410
تاریخ اجراء:22ذی القعدۃ الحرام1443ھ/22جون2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع
متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
ایک شخص جو صاحب روزگار اور صاحب نصاب ہے ،اس پر قربانی بھی
واجب ہے ،جبکہ اس کے والد صاحب بزرگ
ہیں، جو گھر پر فری ہوتے ہیں اور صاحب نصاب نہ ہونے کی
وجہ سے قربانی بھی لازم نہیں ہے،لیکن وہ شخص اپنی
قربانی کرنے کے بجائے والد صاحب کی اجازت سے ان کی طرف سے کرتے ہیں کہ یہ گھر کے بڑے
ہیں ۔شرعی رہنمائی فرمائیں کہ وہ شخص والد صاحب
کی طرف سے قربانی کرنے سے بری الذمہ ہو جائے گا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
مذکورہ صورت میں اس شخص نے
جتنی بھی قربانیاں اپنے والد صاحب کی طرف سے کیں،
وہ سب اس کے والد صاحب کی طرف سے ہوئیں ،لہذا یہ شخص ان
قربانیوں کی وجہ سے بری الذمہ نہ ہوا ،بلکہ یہ شخص اپنے
اوپر قربانی لازم ہونے کے باوجو د قربانی نہ کرنے سے گنہگار ہوا، اس
پر توبہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ جتنے سال اِس نے اپنی
طرف سے واجب قربانی نہیں
کی ہر سال کی قربانی کے بدلے ایک لائقِ قربانی بکری کی قیمت صدقہ
کرے۔
درمختارمیں ہے:’’ لاعن زوجتہ وولدہ الکبیر العاقل ولوادی عنھما
بلااذن اجزا استحسانا للاذن عادۃ ای لو فی عیالہ والا فلا
قسھتانی عن المحیط، فلیحفظ“ترجمہ:اپنی بیوی اور (اپنے)عاقل بالغ
بیٹے کی طرف سے اس پر واجب نہیں اوراگر ان دونوں کی طرف
سے اجاز ت کے بغیر ادا کردے، تو استحسانا ،جائز ہے، عادتا اجازت کی
بناء پر یعنی جب عاقل بالغ بیٹا اس کی عیال
میں شامل ہو، ورنہ اجازت کے بغیرنہیں، یہ قہستانی
نے محیط سے نقل کیا ہے۔ تو اس کو محفوظ کرلو۔(درمختار،کتاب
الزکاۃ،باب صدقۃالفطر،جلد3،صفحہ370،مطبوعہ کوئٹہ)
در مختار میں ہے:’’ ترکت التضحیۃ ومضت ایامھا تصدق غنی بقیمۃ
شاۃ تجزئ فیھا ، ملتقطا“ترجمہ: قربانی چھوٹ گئی اورقربانی کے دن گزر گئے،تو غنی شخص لائقِ
قربانی بکری کی قیمت صدقہ کردے ۔ (در مختار ،کتاب الاضحیہ،جلد9،صفحہ531تا533،مطبوعہ
کوئٹہ)
مفتی امجد علی
اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے سوال ہوا کہ’’جس پر
قربانی واجب ہے ،وہ اگر اپنے لڑکے یا بی بی وغیرہ
کے نام سے کرے ،تو اس کےذمہ کا واجب ساقط ہو گا یا نہیں؟اور یہ قربانی صحیح ہو گی
؟‘‘مفتی صاحب جواباً ارشاد فرماتے ہیں:’’جس پر قربانی واجب ہے
اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہیے،لڑکے یا زوجہ
کی طرف سے کرے گا ،تو واجب ساقط نہ ہو گا،اپنے نام سے کرنے کے بعد
جتنی قربانیاں کرے،مضائقہ نہیں،مگر واجب کوادا نہ کرنا اور
دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت
بڑی غلطی ہے، پھر بھی دوسروں کی طرف سے جو قربانی
کی ہو گئی اور ایام نحر(قربانی کے دن)باقی ہوں، تو
یہ خود قربانی کرے،گزرنے پر قیمتِ اضحیہ تصد ق
کرے۔‘‘(فتاوی
امجدیہ ،کتاب الاضحیہ،جلد2،حصہ3،صفحہ314،مکتبہ رضویہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟