Apni Wajib Qurbani Karne Ke Bajaye Apni Walida Ki Taraf Se Qurbani Karna ?

اپنی واجب قربانی کرنے کے بجائے اپنی والدہ کی طرف سے قربانی کرنا ؟

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-975

تاریخ اجراء: 05ذولحجۃ الحرام1444 ھ/24جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر میں نے اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت کر کے قربانی میں حصہ ڈال لیا جو کہ مجھ پر واجب بھی تھی اور پھر میری ماں نے بولا کہ میرے نام کی قربانی کر دیتے ،تو اس کے بعد میرا دل کرتا ہے کہ وہ قربانی اپنی ماں کے نام پر کروں۔کیا میں ایسا کر سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس پر قربانی واجب ہو اگر وہ کسی اور زندہ شخص کے نام کی قربانی کرے، تو اس سے اُس کی اپنی قربانی کا واجب ادا نہیں ہوگا بلکہ اس پر واجب ہوگا  کہ دوسری قربانی سے اپنا واجب ادا کرے،لہٰذا اگر آپ اپنی والدہ کی نیت سے بھی قربانی کرنا چاہیں تو دوسرا حصہ ڈالیں۔

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا :’’جس پر قربانی واجب ہے ،وہ اگر اپنے لڑکے یا بی بی وغیرہ کے نام سے کرے ،تو اس کےذمہ کا واجب ساقط ہو گا یا نہیں؟اور یہ قربانی صحیح ہو گی ؟‘‘ مفتی صاحب جواباً ارشاد فرماتے ہیں:’’جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہیے،لڑکے یا زوجہ کی طرف سے کرے گا ،تو واجب ساقط نہ ہو گا،اپنے نام سے کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے،مضائقہ نہیں،مگر واجب کوادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے، پھر بھی دوسروں کی طرف سے جو قربانی کی ہو گئی اور ایام نحر(قربانی کے دن)باقی ہوں، تو یہ خود قربانی کرے،گزرنے پر قیمتِ اضحیہ تصد ق کرے۔‘‘(فتاوی امجدیہ،جلد2، حصہ3،صفحہ314،مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم