بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟ |
مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی |
تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ فروری 2017ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟ (2)اگر بچہ عقیقے کے وقت اس جگہ حاضر نہ ہو تو کیا عقیقہ ہوجاتا ہے، یا نہیں؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
)1(ساتویں دن ”عقیقہ“ کرنا بہتر ہے اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو زندگی میں جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہوجائے گی، البتہ ساتویں دن کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے، اس کے یاد رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا، اُس دن سے ایک دن قبل ساتواں دن بنے گا۔مثلاً بچہ جمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتواں دن ہے اور ہفتے کو پیدا ہوا تو ساتواں دن جمعہ ہوگا، پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو ”عقیقہ“ کریگا اس میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔ہاں البتہ فوت ہوجانے کے بعد ”عقیقہ“ نہیں ہو سکتا کہ عقیقہ شکرانہ ہے اور شکرانہ زندہ کیلئے ہی ہوسکتا ہے۔ )2(”عقیقہ“ کرتے وقت بچے کا عقیقے کی جگہ حاضر ہونا کوئی ضروری نہیں، بلکہ اگر بچہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اس کی طرف سے عقیقہ ہوجائے گا۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ والدین کو اولاد کے حقوق گنواتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:ساتویں اور نہ ہو سکے تو چودہویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے۔(مشعلة الا رشاد فی حقو ق الاولاد، ص 16) صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تحریر فرماتے ہیں:ساتویں دن اوس (اُس)کا نام رکھا جائے اور اوس(اُس)کا سرمونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وقت عقیقہ کیا جائے۔ اور بالوں کو وزن کر کے اوتنی (اُتنی) چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے۔(بہارِشریعت، 3/355) مزید فرماتے ہیں:عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہو جائے گی۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اکیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اوس دن کو یاد رکھیں اوس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے وہ ساتواں ہوگا مثلاًجمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتویں دن ہے اور سنیچر کو پیدا ہوا تو ساتویں دن جمعہ ہوگا پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو عقیقہ کریگا اوس (اُس) میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔(بہارِشریعت، 3/356) مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے سوال ہوا کہ مردہ کی جانب سے ”عقیقہ“ جائز ہے،یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً تحریر فرمایاہے:مردہ کا ”عقیقہ“ نہیں ہوسکتا کہ عقیقہ دم ِ شکر ہے اور یہ شکرانہ زندہ ہی کیلئے ہوسکتا ہے۔(فتاویٰ امجدیہ، 2/336) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟
قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصّہ شامل کرنا