2,3 Afrad Mil Kar Janwar Zibah Karen To Takbeer Ka Hukum?

دو،تین افراد مل کر جانور ذبح کریں،تو تکبیر کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-2274

تاریخ اجراء:17ذو القعدۃ الحرام1443ھ/17جون2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ چند افراد مِل کر ایک گائے ، بیل وغیرہ بڑے جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ تو جانور ذبح کرنے والا شخص اپنے ساتھ دوسرے افراد کو بھی شامل کر لیتا ہے اور یوں دو تین لوگوں نے مِل کر ایک چھری پکڑی ہوتی ہے اور پھر ذبح کے لیے وہ تمام ہی چھری چلاتے ہیں۔ اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرما دیں کہ کیا بسم اللہ پڑھنا ان ذبح کرنے والوں میں سے ہر شخص پر لازم ہے یا ان میں سے کوئی ایک بھی پڑھ لے گا ، تو جانور حلال ہوجائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جانور ذبح کرنے والے شخص پر بسم اللہ پڑھنا لازم ہے کہ جانور حلال ہونے کے لیے یہ شرط ہے ۔ ذبح کے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھنے سے جانور حلال نہیں ہوگا ، حرام ہوجائے گا اور ذبح کرنے والے سے چُھری چلانے والا ، جو نفسِ ذبح کا فعل ادا کر رہا ہے ، وہ شخص مراد ہے۔ اب اگر وہ ایک شخص ہے ، تو بسم اللہ پڑھنا اسی اکیلے پر لازم ہے اور اگر ایک سے زیادہ دو تین افراد ہیں ، تو ان دونوں ، تینوں تمام پر بسم اللہ پڑھنا لازم ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب ایک سے زیادہ افراد مل کر چھری چلائیں گے ، تو ان میں سے ہر ایک پر بسم اللہ پڑھنا لازم ہے ، اگر کسی ایک نے بھی جان بوجھ کر یا یہ سوچ کر کہ دوسرے نے پڑھ لی ہے ، وہی کافی ہے ، یہ سوچ کر اس نے بسم اللہ  نہ پڑھی ، تو وہ جانور حلال نہیں ہوگا ، حرام ہوجائے گا، البتہ وہ افراد کہ جو جانور کی ٹانگیں یا رسی وغیرہ پکڑے ہوئے ہوتے ہیں ، ذبح کرنے یعنی چھری چلانے  کے عمل میں شریک نہیں ہوتے ، توان میں سے کسی پر بھی تکبیر کہنا لازم نہیں ہے ، صرف چھری پھیرنےوالے کا تکبیر کہنا ضروری ہے۔

   در مختار میں ہے : ’’ وتشترط التسمية من الذابح حال الذبح ‘‘ ترجمہ : جانور ذبح کرتے ہوئے ذبح کرنے والے شخص کے لیے بسم اللہ کہنا شرط ہے ۔

   اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ أراد بالذابح محلل الحيوان ليشمل الرامي وشمل ما إذا كان الذابح اثنين، فلو سمى أحدهما وترك الثاني عمدا حرم أكله كما في التتارخانية ‘‘ ترجمہ : ذبح کرنے والے سے مراد وہ شخص ہے کہ جو جانور کو حلال کر رہا ہے ، تاکہ یہ قید تیر پھینکنے والے کو شامل ہوجائے اور اس صورت کو بھی شامل ہوجائے کہ جب ذبح کرنے والے دو شخص ہوں ، تو اگر ان میں سے ایک نے بسم اللہ پڑھی اور دوسرے نے جان بوجھ کر چھوڑ دی ، تو وہ جانور ( حلال نہیں ہوگا ، اس کا ) کھانا حرام ہے ۔ جیسا کہ فتاویٰ تتارخانیہ میں ہے ۔ (رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الذبائح ، جلد 9 ، صفحہ 504، مطبوعہ کوئٹہ )

   در مختار میں ایک اور مقام پر ہے : ’’ أراد التضحية فوضع يده مع يد القصاب في الذبح وأعانه على الذبح سمى كل وجوبا، فلو تركها أحدهما أو ظن أن تسمية أحدهما تكفي حرمت ‘‘ ترجمہ : کسی شخص نے قربانی کرنے کا ارادہ کیا ، توجانور ذبح کرنے میں قصاب (یعنی چھری چلانے والے ) کے ہاتھ کے ساتھ اس نے اپنا ہاتھ رکھ دیا اور ذبح کرنے میں اس کی مدد کی ، تو ایسی صورت میں بسم اللہ پڑھنا ان تمام پر لازم ہے ، لہٰذا اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی بسم اللہ چھوڑ دی یا یہ گمان کیا کہ ایک ہی شخص کی بسم اللہ کافی ہے ، تو وہ جانور حرام ہوجائے گا۔ ( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الاضحیۃ ، جلد 9 ، صفحہ 551 ، 552 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’اس صورت میں دونوں پر تکبیر واجب ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی قصدا تکبیرنہ کہے گا، ذبیحہ مردار ہوجائے اگر چہ دوسرا تکبیر کہے۔ تکبیر ذابح پر لازم فرمائی گئی ہے اور ہاتھ پاؤں پکڑنا ذبح نہیں، ہاتھ پاؤں پکڑنے والا مثل رسی کے وہی کام دے رہا ہے، جو ایک رسی دیتی ہے۔ اس پر تکبیرلازم ہونا درکنار، اگر مجوسی یا بت پر ست ہاتھ پاؤں پکڑے گا ذبیحہ میں خلل نہ آئے گا۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 20 ، صفحہ 218 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں : ’’بےشک مُعِینِ ذابح پر تسمیہ واجب ہے ، مگر مُعِینِ ذابح سے مراد وہ شخص ہے کہ چھری چلانے میں اس کا مددگار ہو کہ اس صورت میں دونوں نے مِل کر ذبح کیا ۔ اگر ایک نے بھی عمداً تسمیہ ترک کیا ، جانور حرام ہے اور ذبح کے وقت جانور کے ہاتھ پاؤں پکڑنے والے پر تسمیہ واجب نہیں کہ یہ مُعِینِ ذابح نہیں کہ فعلِ ذبح میں اس کو دخل نہیں ۔ ‘‘( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 296 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم