بھینسے اور بھینس کی قربانی کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7368

تاریخ اجراء:22ذیقعدۃ الحرام1442ھ/03 جولائی2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  بھینس  اور بھینسے   کی قربانی جائز ہے یا نہیں ؟

 سائل :محمد رضوان (فیصل آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بھینس اور بھینسے  کی قربانی  کرنا،بلاشبہ جائز ہے ،ا س میں شرعی طور پر  کوئی حرج  نہیں ،کیونکہ بھینس ،گائے ہی کی جنس (Gender)میں سے ہے ، تو جس طرح گائے کی قربانی کرنا ،جائز ہے،یونہی بھینس کی قربانی کرنا بھی جائز ہے اور  یہ بات قرآن وحدیث ،اجماعِ علما، مفسّرین ،محدثین اور ائمۂ مجتہدین کےاقوال سے ثابت ہے۔ 

    •قرآنِ پاک سے ثبوت:

    اللہ پاک نے قربانی  کے جانوروں کے لیے’’بَہِیۡمَۃِ الْاَنْعَامِ ‘‘ کا لفظ ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنۡسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الْاَنْعَامِ) ترجمہ کنزالعرفان:اور ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی تا کہ وہ اس بات پر اللہ  کا نام یاد کریں کہ اس نے انہیں بے زبان چوپایوں سے رزق دیا۔

 (پارہ 17 ،سورۃ الحج ،آیت 34)

    اور پھر خود قرآنِ کریم نے  ’’بَہِیۡمَۃِ الْاَنْعَامِ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرمایا:(ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ…وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ) ترجمہ کنزالعرفان:(اللہ  نے) آٹھ نر و مادہ جوڑے (پیدا کیے) ایک جوڑا بھیڑ سے اور ایک جوڑا بکری سے... اور ایک جوڑا اونٹ کا اور ایک جوڑا گائے کا۔

(پارہ8،سورۃ الانعام ،آیت 143،144)

    اوپر بیان کردہ  آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مشہور تابعی مفسّرحضرت   لیث بن ابو سلیم علیہ الرحمۃ  فرماتے ہیں :”الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية “ ترجمہ:بھینس اور بختی (اونٹ کی ایک قسم)  اُن آٹھ جوڑوں میں سے ہی ہیں(جن  کا اللہ پاک نے ذکر فرمایا)۔

(تفسیرِ درمنثور ،تحت ھذہ الآیۃ ،جلد3 ،صفحه 371 ،مطبوعه دارالفكر، بيروت)

    معلوم ہوا کہ بھینس  ثمانیۃ ازواج اور بھیمۃ الانعام میں داخل ہے ،لہٰذا اس کی قربانی کرنا بھی جائز ہے۔

    •حدیثِ پاک سے ثبوت:

    سننِ ابو داؤد میں ہے:”عن جابر بن عبد اللہ، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال:البقرة عن سبعة، والجزور عن سبعة  “ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:گائے سات افراد کی طرف سے اور اونٹ  بھی سات افراد  کی طرف سے (قربان ہو سکتاہے )۔

(سننِ ابو داؤد ،کتاب الضحايا ،باب فی البقر والجزور عن کم  تجزی ،جلد2صفحہ 40 ،مطبوعہ لاھور)

    حدیثِ پاک میں” بقرۃ“   کا لفظ استعمال کیا گیا اور بقرۃ ایک جنس ہے جس کے تحت مختلف قسم کے جانور آتے ہیں،ان میں سے ایک جاموس یعنی بھینس بھی ہے ،جیساکہ لسان العرب میں  ہے:’’البقر جنس والجاموس نوع من البقر‘‘ ترجمہ:گائے جنس ہے اور اسی کی قسم جاموس یعنی بھینس ہے۔

 (لساب العرب ،جلد 6 ،صفحہ 51 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

    حضرت مولائے کائنات علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں :”الجاموس تجزی عن سبعة فی الأضحيۃ “ ترجمہ:بھینس قربانی میں سات افراد کی طرف سے کافی ہے ۔  

(مسندالفردوس ،کتاب الاضحیۃ ،جلد 2 ،صفحہ124 ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،بیروت )

    •اقوالِ ائمہ سے ثبوت:

    مصنّف ابنِ ابی شیبہ میں  ہے:” عن الحسن انّہ  کان یقول : الجوامیس بمنزلۃ البقر “ ترجمہ:حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ بھینس گائے کی طرح ہی ہے( یعنی تمام احکام میں گائے کی طرح ہے)۔

(مصنف ابن ابی شیبہ  ،جلد4،صفحہ357، رقم:10839،مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

    فقہِ حنبلی کے بانی حضرت ِ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے بھینس کی قربانی کے متعلق سوال کیاگیا ،تو آپ  نے فرمایا:”لااعرف خلاف هذا “ ترجمہ:میں  اس کے جواز کے متعلق  کسی کااختلاف نہیں جانتا۔

 (مسائل الامام احمد بن حنبل ،کتاب الاضحیۃ ،صفحہ 4027 ،مسئلہ2865،مطبوعہ مدینۃالمنورۃ)

    علامہ ابنِ مُنذِر نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:318ھ)  لکھتے ہیں:” واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر  “ترجمہ:اور علماء کااس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔

(الاجماع ،کتاب الزکاۃ،صفحہ 52 ،مطبوعہ مکتبۃ الفرقان ،دولۃ الامارات العربیہ)

    کروڑوں مالکیوں کے پیشوا امامِ مالک  بن انس رضی اللہ عنہ  فرماتےہیں :”انّما ھی بقر کلّھا “ ترجمہ:بے شک بھینس تمام احکام میں گائے کی طرح ہے۔

 (مؤطا امامِ مالک ،کتاب الزکوٰۃ ،ماجاء فی صدقۃ البقرۃ ،صفحہ 294 ،مطبوعہ کراچی )

    حضرت امامِ یحیٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”انّ البقر جنس  ونوعہ الجوامیس  “ترجمہ:گائے جنس ہے اور بھینس اسی کی قسم  ہے(لہٰذا جو احکام گائے کے ہیں وہی بھینس کے ہیں)۔

  (المجموع شرح المھذب ،کتاب الزکاۃ ،باب زکاۃ الغنم ،جلد6،صفحہ 426 ،مطبوعہ دارالکتب  العلمیہ ،بیروت)

    فقیہ النفس امام قاضی خان  حنفی  رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات :592 ھ) لکھتے ہیں:”الاضحیۃ تجوز من اربع من الحیوان الضان والمعز والبقر والابل ذکورھا واناثھا وکذلک الجاموس لانّہ نوع من البقرالاھلی “ ترجمہ:جانوروں میں سے چار کی قربانی  جائز ہے،بھیڑ، بکری ،گائے اوراونٹ ،ان کے مذکر و مؤنث (دونوں کی جائز ہے)اسی طرح بھینس کی قربانی بھی جائز ہے،اس لیے کہ یہ پالتو گائے کی ہی قسم ہے۔

(فتاویٰ قاضی خان ،کتاب الاضحیۃ ،فصل فیما یجوز فی الضحایا ،جلد3،صفحہ348 ،مطبوعہ کوئٹہ)

    اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے:)”اما جنسه )فهو ان يكون من الاجناس الثلاثة الغنم او الابل او البقر و يدخل فى كل جنس نوعه و الذكر و الانثى منه الخصى و الفحل لاطلاق اسم الجنس على ذالك والمعز نوع من الغنم و الجاموس نوع من البقر   “ترجمہ:بہرحال جانور کی جنس ،تو وہ  بکری ،اونٹ ،اور گائے تین اجناس   میں سے ہو اور ہر ایک کی جنس میں اس کی نوع بھی داخل ہے،چاہے وہ  جانور نر ہو یا مادہ ،خصی ہو یا غیر خصی اور  بھیڑ ،بکری کی اوربھینس ،گائے کی ہی ایک قسم ہے۔

(فتاوی عالمگیری  ،کتاب الاضحیۃ ،الباب الخامس ،جلد5،صفحہ 297 ،مطبوعہ کوئٹہ)

    شیخ الاسلام والمسلمین اعلیٰ حضرت امام احمد  رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1340ھ ) لکھتے ہیں:”حقیقت یہ ہے کہ علماء کے نزدیک بھینس کا گائے کی ہی نوع میں ہونا ثابت ہوا ،تو انہوں نے کہا کہ قرآن کا لفظِ بقر بھینس کو شامل ہے۔ “

(فتاویٰ رضویہ ،جلد20،صفحہ 401،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم