قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنا کیسا اور عقیقے کے گوشت کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1347

تاریخ اجراء:26ذوالقعدۃ الحرام1439ھ/09اگست2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے بھائی کا بیٹا پیدا ہوا ہے ، تو گھر والے کہہ رہے ہیں کہ اس کا عقیقہ بھی قربانی کے جانور میں حصہ ڈال کر کر لیں گے ، لیکن کچھ رشتہ دار کہہ رہے ہیں کہ قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ نہیں رکھا جاسکتا ، تو آپ شرعی رہنمائی فرما دیں کہ قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ نیز عقیقے کا گوشت والدین ، دادا دادی ، نانا نانی بھی کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھنا جائز ہے ، اس میں  کوئی حرج نہیں، البتہ حصہ رکھنے میں افضل یہ ہے کہ لڑکے کے عقیقے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے عقیقے کے لیے ایک حصہ رکھا جائے ، اگر کسی نے لڑکے کے عقیقے کے لیے  بھی ایک حصہ  رکھا ، جب بھی کوئی حرج نہیں ۔ نیز عقیقے کے گوشت کے قربانی کی طرح تین حصے کرنا مستحب ہے ، جو بچےّ کے والدین ، دادا دادی ، نانا نانی ، امیر غریب ہر کوئی کھا سکتا ہے ۔

    حاشیۃ الطحطاوی میں ہے : ”و لو ارادوا القربۃ الاضحیۃ او غیرھا من القرب اجزأھم سواء کانت القربۃ واجبۃ او تطوعا او وجب علی البعض دون البعض و سواء اتفقت جھۃ القربۃ او اختلفت  کذلک ان اراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولد لہ من قبلہ “ ترجمہ : ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں نے ( اس جانور میں )قربانی کی قربت کی نیت کی ہو یا قربانی کے علاوہ کسی اور قربت کی نیت ہو ، تو یہ نیت کرنا ان کو کافی ہوجائے گا ۔ چاہے وہ قربتِ واجبہ ہو یا نفلی قربت ہو یا بعض پر واجب ہو اور بعض پر واجب نہ ہو ، چاہے قربت کی جہت ایک ہی ہو یا مختلف ہو  اسی طرح  اگر ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں میں سے بعض نے اِس سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کے عقیقے کی نیت کی ( تو بھی جائز ہے ۔ )                    

  ( حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ، کتاب الاضحیۃ ، جلد 4 ، صفحہ 166 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ” عقیقہ کا گوشت آباء و اجداد بھی کھا سکتے ہیں ۔ مثل قربانی اس میں بھی تین حصے کرنا مستحب ہے ۔ “

 ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 20 ، صفحہ 586 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  بہارِ شریعت  میں فرماتے ہیں :” عوام میں یہ بہت مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچہ کے ماں باپ اور دادا دادی ، نانا  نانی نہ کھائیں ، یہ محض غلط ہے ، اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ “

( بھارِ شریعت ، حصہ 15 ، جلد 3 ، صفحہ 357 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

    فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں : ” کتبِ فقہ میں مصرح ( یعنی اس بات کی صراحت کی گئی ہے ) کہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے  تو جب قربانی میں عقیقہ کی شرکت جائز ہوئی ، تو معلوم ہوا کہ گائے یا اونٹ کا ایک جزء عقیقہ میں ہوسکتا ہے اور شرع نے ان کے ساتویں حصہ کو ایک بکری کے قائم مقام رکھا ہے ، لہٰذا لڑکے کے عقیقہ میں دو حصے ہونے چاہیے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ یعنی ساتواں حصہ کافی ہے ، تو ایک گائے میں سات لڑکیاں یا تین لڑکے اور ایک لڑکی کا عقیقہ ہوسکتا ہے ۔ بعض عوام میں یہ مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت والدین نہ کھائیں ، غلط ہے ۔ والدین بھی کھا سکتے ہیں اور غنی کو بھی کھلاسکتے ہیں ۔ “

 ( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 302 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم