قربانی کا جانور خرید کر پھر بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1647

تاریخ اجراء:26ذوالقعدۃالحرام1440ھ/30جولائی2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ ہم قربانی کے لیے جانور خرید کراپنےعلاقے میں لائے ،تو وہ ایک آدمی کو پسند آگیا ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ جانور مجھے بیچ دو اور آپ اپنے لیے دوسرا جانور خرید لواوراس آدمی کوجانوربیچنے سےہمیں نفع بھی مل رہا ہے،کیا ہم وہ جانوراسے بیچ سکتے ہیں ؟

نوٹ :وہ جانور غنی نے قربانی کے لیے خریدا تھا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    غنی نےقربانی کی نیت سےجو جانورخریدا اگروہ اسے بیچتا ہے اور اس کی قیمت میں سے کچھ رقم کم کرکے      بقیہ کا دوسرا جانور خرید ے،تو بیچنا  ناجائز ہے  اوریہ گنہگار  ہوا ، اس پر توبہ لازم ہے اور  بچائی ہوئی رقم  صدقہ کر دے  اور اگراسے بیچ کر اس کی مثل دوسرا جانور لانا چاہتا ہے  ،تو بھی بیچنا مکروہ تحریمی  وگناہ ہے، ہاں  اگر اس سے بہتر جانور لاناچاہتا  ہے،تو  بیچناجائز ہے۔ 

    جب جانور خریدتے وقت دوسروں کو شریک کرنے کی نیت نہ ہو ، تو اس کے حصے بیچنے سےمتعلق درمختارمع ردالمحتار میں ہے:’’ان نوی وقت الشراء الاشتراک  صح  استحساناً و الا لا استحساناً وفی الھدایہ :و الاحسن ان یفعل  ذلک قبل الشراءلیکون  ابعد عن الخلاف و عن صورۃ  الرجوع  فی القربۃ ۔و فی الخانیۃ :ولو لم ینو  عند الشراء ثم اشرکھم  فقد کرھہ ابو حنیفۃ‘‘ترجمہ:اگر جانور خریدتے وقت دوسروں کو شریک کرنے کی نیت کی،تو استحساناً صحیح ہے، ورنہ شریک کرنا استحساناً صحیح نہیں ہے اور ہدایہ میں ہے:بہتر یہ ہے کہ خریدنے سے پہلے یہ (دوسروں کو شریک کرنے  کا عمل )کرلےتاکہ اختلاف اورقربت میں رجوع کرنے کی صورت سے بچ جائے ‘‘اور خانیہ میں ہے : اگراس نےخریداری  کے وقت  نیت نہیں کی ،پھر دوسروں کو شریک کیا ،تو امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اسے مکروہ کہا ہے ۔

(رد المحتار علی الدر المختار ،کتاب الاضحیۃ،جلد 9،صفحہ 527،مطبوعہ کوئٹہ)

    قربانی کی نیت سے خریدا ہوا جانور بدلنے سے متعلق جد الممتار میں ہے :’’اقول  : تقدم فیما اذا ضلت فشری اخری فوجد الاولی فذبح الثانیۃ و  ھی اقل  قیمۃ  من الاولی تصدق بالفضل ،وذلک لانھا و ان لم تتعین   فی حق الغنی  الغیر الناذر  لکنہ  لما  شراھا للاضحیۃ  فقد نوی اقامۃ  القربۃ   بھا ،فاذا  ابدلھا بما  دونھا  کان رجوعاً عن بعض ما نوی فامر   بالتصدق ،و قد مر فی الشرح بلفظ :  (ضمن الزائد) و فی حاشیۃ  عن البدائع بلفظ: (علیہ ان یتصدق بافضلھا) ۔۔۔و قال فی الھدایۃ و التبیین : (انھا تعینت للاضحیۃ  حتی وجب ان یضحی بھا بعینھا  فی ایام النحر ،و یکرہ ان یبدل بھا غیرھا )قال فی العنایۃ  :( بعینھا فی ایام النحر  فیما  اذا  کان  المضحی فقیراً  و یکرہ   ان  یبدل   اذا  کان  غنیا )و مطلق الکراھۃ  التحریم بل زاد سعدی افندی بعد قولہ  : ’’اذا کان غنیا ‘‘ (ولکن یجوز استبدالھا  بخیر منھا عند ابی حنیفۃ و محمد رحمھما اللہ تعالی)خصھما لانھا عند ابی یوسف کالوقف ،فدل علی ان الاستبدال بغیر  الخیر  لا یجوز ۔

    وقال  فی العنایۃ  (لو اشتری اضحیۃ  ثم  باعھا و اشتری  مثلھا لم یکن بہ بأس ) فافھم ان لو کانت ادون منھا  کان  بہ بأس،  ولا بأس فی المکروہ تنزیھا  فیکرہ تحریما  بل قال علیہ  سعدی افندی   : (اقول : فیہ بحث ) ای : فی المثل ایضاً  بأس  بل یشترط  للجواز الخیرۃ کما قدّمنا عنہ‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں :پہلے جو مسئلہ  گزرا  کہ جب قربانی کا جانور گم ہوگیا اور مالک  نے دوسراجانور خرید لیا اور پھر پہلا مل گیا اور اس نے دوسرا جانور ،جو پہلے سے کم قیمت کاہے، ذبح کر دیا،تو وہ شخص (پہلے جانور کی دوسرے سے ) زائدقیمت صدقہ کردے اور یہ حکم اس لیے ہے کہ  اگرچہ پہلا جانور  جس غنی نے نذر نہ مانی ہو،اس کے حق میں متعین نہیں ہوا تھا ،لیکن جب اس نے قربانی کے لیے جانور خریدا ،تو اس جانور کے ذریعے اس نے قربت قائم کرنے کی نیت کر لی اور جب وہ اس  سے کم تر کے ساتھ بدلے گا ،تو یہ (بدلنا)اس  کے بعض سے رجوع کرنا ہوگا ، جس میں اس نے(قربت کی ) نیت کی تھی ،لہٰذا اسے صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا اور شرح میں ان الفاظ کے ساتھ گزرا ہے کہ وہ زائد کا ضامن ہے اور حاشیہ میں بدائع کے حوالے سے یہ الفاظ ہیں کہ اس پر لازم ہے ،وہ دونوں کے درمیان جو زیادتی ہے ،اس کو صدقہ کرے ۔ہدایہ  اور تبیین میں فرمایا: (جو جانورپہلے خریدا تھا)وہ قربانی کے لیے معین ہوگیا حتی کہ اس پر واجب ہے کہ قربانی کے دنوں میں  بعینہ اسی جانور کی قربانی کرے اور اس کو دوسرے جانور سے بدلنا مکروہ  ہے ۔عنایہ  میں فرمایا :اگر قربانی کرنے والا شخص فقیر ہے ،تو قربانی کے دنوں میں بعینہ اسی جانور کی قربانی کرےاور اگر غنی ہے،تو اس کے لیے جانور بدلنا مکروہ ہے اور مطلق مکروہ ، مکروہ تحریمی ہوتا ہے ۔بلکہ سعدی آفندی علیہ الرحمۃ نے صاحب عنایہ کے قول:’’اذا کان غنیا ‘‘کے بعد یہ زائد کیا ۔’’ لیکن امام اعظم و محمد رحمہما  اللہ تعالیٰ کے نزدیک  قربانی کے لیے خریدے ہوئے ،جانور کو اس سے بہتر سے بدلنا جائز ہے ۔ “ تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بہتر کے علاوہ سے بدلنا جائز نہیں اور سعدی آفندی نے ( بہتر سے بدلنے کے  جواز کو)ان دونوں (یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد)کے ساتھ خاص  اس لیے کیا ، کیونکہ امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک قربانی کا جانور وقف کی طرح ہے۔

    اور عنایہ میں فرمایا :اگر قربانی کاجانور خریدا،پھر اسے بیچ دیا اور اس کی مثل خریدا ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔تو تم اس بات کو سمجھو کہ اگر دوسرا جانور پہلے  سے کم تر ہو،تو اس میں حرج ہےاور(حرج ہونا قرار دینے کا مطلب ہوا کہ یہ مکروہ تحریمی ہوگا کیونکہ) مکروہ تنزیہی میں کوئی حرج نہیں  ہوتا ، لہٰذا (حرج قرار دینے کا مطلب ہوا کہ دوسرے کا پہلے سے کم تر ہونا )مکروہ تحریمی ہے  ،بلکہ سعدی آفندی علیہ الرحمۃ نے فرمایا :میں کہتا ہوں:اس مسئلے میں بھی  بحث ہے یعنی دوسرے جانور کا پہلے کی مثل ہونے میں بھی حرج ہے،بلکہ (جانور بدلنے)کے جواز کے لیے (دوسرے کا)بہتر ہونا شرط ہے ،جیسا کہ ہم ان کے حوالے سے پہلےذکرکر چکے ہیں ۔

(جد الممتار،کتاب الاضحیۃ ،جلد6،صفحہ 459،460 ،مکتبۃ المدینہ،کراچی)          

    قربانی کے لیے خریدی ہوئی گائے کسی کو دے کر دوسرا جانور قربان کرنے سے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:’’وہ گائے کہ بہ نیتِ قربانی خریدی ،اس کا دوسری گائے سے بدلنا بھی منع ہے کہ اللہ کے واسطے اس کی نیت کر کے پھرنا معیوب ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد  14،صفحہ 577،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم