حاملہ جانور کی قربانی کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-3026

تاریخ اجراء:17ذوالقعدۃالحرام1435 ھ/13ستمبر2014ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ ہماری دو گائیں ہیں، ہمارا  بقر عید پر اُن میں سے ایک کو ذبح کرنے کا ارادہ ہے،لیکن اُن میں سے ایک عرصہ چارماہ سےاور دوسری چند روز سے حاملہ ہے، اگر ہم اُن میں سے کسی کو ذبح کر دیں، تو قربانی ادا ہو جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    گابھن (حاملہ) جانور کی قربانی شرعاً ناپسند ہے، لیکن قربانی ہو جائے گی اور اگر صرف پندرہ بیس روز کا حمل ہے، تو کسی قسم کا مضائقہ نہیں۔

    فتاوی عالمگیری میں ہے:’’شاۃ او بقرۃ اشرفت علی الولادۃ، قالوا: یکرہ ذبحھا‘‘ترجمہ:بکری یا گائے بچہ جننے کے قریب ہو، تو فقہاء فرماتے ہیں کہ اس کو ذبح کرنا مکروہ ہے۔‘‘

(فتاوی عالمگیری،کتاب الذبائح ،جلد5،صفحہ354، مطبوعہ کراچی)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن (متوفی1340ھ) فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:’’گابھن کی قربانی، اگرچہ صحیح ہے، مگر ناپسند ہے۔‘‘                                                                                       

(فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ370،رضا فاونڈیشن،لاھور)

    صاحبِ بہار شریعت، مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی (متوفی1367ھ) فتاوی امجدیہ میں فرماتے ہیں:’’گابھن جانور کی بھی قربانی ہو سکتی ہے،مگر گابھن ہونا معلوم ہے، تو احتراز اولیٰ ہےاور اگر صرف پندرہ بیس روز کا گابھن ہے، تو اس میں کسی قسم کا مضائقہ نہیں۔‘‘

 (فتاوی امجدیہ، حصہ3،صفحہ328،مکتبہ رضویہ،آرام باغ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم