بھینس کی قربانی کا حکم |
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Pin-3033 |
تاریخ اجراء:25ذوالقعدۃالحرام1435ھ/21ستمبر2014ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بھینس اور بھینسے کی قربانی کرنا کیسا؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
دو سالہ بھینس اور بھینسے کی قربانی جائز ہے ،کیونکہ یہ گائے کی ایک قسم ہے اور گائے کی قربانی احادیث میں مذکور ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی میں گائے سات افراد کی طرف سے کفایت کرتی ہے ۔ چنانچہ سنن ابو داؤد میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: البقرۃ عن سبعۃ، والجزور عن سبعۃ‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ (قربانی میں ) گائے سات کی طرف سے اور اونٹ (بھی ) سات کی طرف سے (کافی) ہے ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الضحایا ، باب فی البقر و الجزور عن کم تجزی، جلد 2، صفحہ 40،مطبوعہ لاھور) بھینس اور بھینسا گائے کی جنس میں داخل ہیں۔ علامہ علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی علیہ رحمۃ اللہ الغنی(متوفی587ھ) بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:’’اما جنسہ، فھو ان یکون من الاجناس الثلاثۃ: الغنم او الابل او البقر، ویدخل فی کل جنس نوعہ والذکر والانثی منہ والخصی والفحل لانطلاق اسم الجنس علی ذلک، والمعز نوع من الغنم، والجاموس نوع من البقر بدلیل انہ یضم ذلک الی الغنم والبقر فی باب الزکاۃ‘‘ترجمہ: بہر حال قربانی کے جانوروں کی جنس،تو اس کا ان تین جنسوں میں سے ہونا ضروری ہے:بکری، اونٹ یا گائےاور ہر جنس میں اُس کی نوع،نر اور مادہ، خصی اور غیر خصی سب شامل ہیں، کیونکہ جنس کا اطلاق اِن سب پر ہوتا ہے۔بھیڑ،بکری کی اور بھینس، گائے کی ایک قسم ہے،اِس دلیل کی بناء پر کہ انہیں ( یعنی بھیڑ اور بھینس کو) زکوۃ کے معاملے میں بکری اور گائے کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب التضحیہ، جلد4،صفحہ205، مطبوعہ کوئٹہ) برہان الدین ابو الحسن علی بن ابو بکر المرغینانی علیہ رحمۃ اللہ الغنی(متوفی593ھ) ہدایہ شریف میں فرماتے ہیں:’’(والاضحیۃ من الابل والبقر والغنم)ویدخل فی البقر الجاموس، لانہ من جنسہ‘‘ترجمہ: (اونٹ،گائے اور بکری کی قربانی درست ہے ) ۔ ۔ اور گائے کے تحت بھینس بھی داخل ہے، کیونکہ وہ اِسی کی جنس میں سے ہے۔ (ھدایہ ،کتاب الاضحیہ،جلد4،صفحہ449،مطبوعہ لاھور) خاتم المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی علیہ رحمۃ اللہ القوی (متوفی 1252ھ) رد المحتار میں فرماتے ہیں :’’(و الجاموس) ھو نوع من البقر کما فی المغرب، فھو مثل البقر فی الزکاۃ والاضحیۃ والربا‘‘ترجمہ: (اوربھینس) یہ گائے کی ایک قسم ہے جیسا کہ المُغرب میں ہےاور یہ زکوۃ،قربانی اور سود (کے معاملات) میں گائے ہی کی مثل ہے ۔‘‘ (رد المحتار،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ البقر،جلد3،صفحہ241،مطبوعہ پشاور) قربانی میں دو سالہ گائے اور بھینس کفایت کرے گی۔چنانچہ علامہ عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان کلیوبی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القوی (متوفی 1078 ھ) مجمع الانہر میں فرماتے ہیں : ’’( وانما یجزیء فیھا ) ای فی الاضحیۃ۔۔(الثنی فصاعدا من الجمیع) وھو ابن خمس من الابل وحولین من البقر والجاموس وحول من الشاۃ والمعز‘‘ ترجمہ : (بکری، گائے اور اونٹ کی قربانی میں دوندا یا اس سے زائد عمر والا جانور کفایت کرے گا )اور اُ ونٹ میں اس کی عمر پانچ سال ہے، گائے اور بھینس میں دو سال اور بکری اور بھیڑ میں ایک سال ہے ۔‘‘ ( مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ، کتاب الاضحیہ ، جلد 4، صفحہ 171، مطبوعہ کوئٹہ ) سیدی اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن (متوفی 1340 ھ ) فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں : ’’(ترجمہ):قربانی کے جانوروں کی ابتدائی تین قسمیں ہیں:(١)شاۃ یا غنم،(٢)بقر،(٣)جمل ۔ شاۃ کو پھر دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: ضان اور معز ا ور بقر کی بھی دو قسمیں کرتے ہیں:بقر و جاموس۔اس طرح اصل اور ذیلی قسموں کو ملا کر کل پانچ قسمیں ہوئیں: (١) جمل (اونٹ)، (٢) بقر (گائے)، (٣) جاموس (بھینس)، (٤) ضان (دنبہ) ، (٥) معز (بکری) اور مذکر و مؤنث دونوں کو شامل کر دیا جائے، تو کل دس ہوتی ہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ382،383،رضا فاونڈیشن،لاھور) فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی فتاوی فیض الرسول میں فرماتے ہیں:’’جاموس یعنی بھینس بھینسے کی قربانی حدیثوں سے ثابت ہے کہ جاموس بقر کی ایک قسم ہے اور بقر کی قربانی حدیثوں میں مذکور ہے۔‘‘ (فتاوی فیض الرسول،جلد 2، صفحہ 449، شبیر برادرز، لاھور) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟