پالتو جانور میں قربانی کی نیت کرنے کے بعد اسے تبدیل کرنا کیسا؟ |
مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Nor-11449 |
تاریخ اجراء:15شعبان المعظم1442ھ/29مارچ2021ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ میں نے بکری کے دو بچے خریدے تھے ،خریدتے وقت صرف پالنے کی نیت تھی قربانی کی نیت نہ تھی، البتہ کچھ دنوں بعدمیں نے یہ نیت کرلی تھی کہ میں ان دونوں بکری کے بچوں کی قربانی کروں گا،لیکن معاملہ یہ ہوا کہ ایک بیمار ہوکر مرگیا اور ایک ابھی بیمار ہے ،میں یہ چاہتا ہوں کہ اسے راہِ خدا میں صدقہ کردوں اور قربانی کے ایام میں دوسرے جانور خرید کر قربانی کروں ،کیا میں اس جانور کو صدقہ کرسکتاہوں یا اسی جانور کی قربانی کرنا مجھ پر لازم ہے ؟میں نے ان جانوروں کی ہی قربانی کرنے کی منت نہیں مانی تھی، صرف نیت کی تھی ۔اللہ تعالیٰ کےفضل و کرم سے میں غنی ہوں۔ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
پوچھی گئی صورت میں آپ اس جانور کو صدقہ کرسکتے ہیں ،آپ پر خاص اسی جانور کی قربانی کرنا لازم نہیں ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ جانور اگرقربانی کی نیت سے نہ خریدا ہو،بلکہ کسی اور نیت سے خریدا ہو اور بعد میں اس جانور پر قربانی کی نیت کی ہو، تو فقط اس پر قربانی کی نیت کرلینے سے اسی کی قربانی واجب نہیں ہوجاتی، برابر ہےکہ یہ شخص فقیر ہو یا غنی ہو ،البتہ قربانی کے ایام میں قربانی واجب ہونے کی شرائط پائی گئیں ، تو قربانی واجب ہوگی، اس واجب کی ادائیگی کے لیے قربانی کے لائق دوسرا جانور خرید کر قربانی کرسکتے ہیں۔ نیزجو بکری کابچہ مرگیاہے، اس کے بدلے میں الگ سے آپ پر کوئی قربانی لازم نہیں ہے، بلکہ قربانی واجب ہونے کی شرائط پائی جانے کی صورت میں جو قربانی آپ پر واجب ہوگی ،وہی قربانی کرنا واجب ہے۔ فقیر نے یا غنی نے بکرا خریدااور خریدتے وقت اس بکرے پر قربانی کی نیت نہ تھی، بعد میں قربانی کی نیت کی، تو اس خاص بکرے کی قربانی کے حکم کو بیان کرتے ہوئے بدائع الصنائع میں ہے:” اشترى شاة ولم ينو الاضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحى بها لا يجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا لان النية لم تقارن الشراءفلا تعتبر“یعنی:اگر کسی نے بکری خریدی اور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی توبعد میں قربانی کی نیت کرنے سے اس شخص پر اس خاص جانور کی قربانی واجب نہ ہوگی، برابر ہے کہ یہ شخص غنی ہو یا فقیر ،کیونکہ اس خاص جانور کی قربانی کرنے کی نیت خریدنے سے ملی ہوئی نہیں ہے اور خریدنے کے بعد اس خاص جانورکی قربانی کی نیت کا اعتبار نہیں ہے ۔ (بدائع الصنائع ،جلد05،صفحہ62،مطبوعہ کراچی) اسی طرح رد المحتارمیں ہے:”فلو کانت فی ملکہ فنوٰی ان یضحٰی بھا، او اشتراھا، ولم ینوالاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذٰلک لایجب، لان النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر“یعنی:اگر بکری اپنی ملک میں تھی، تونیت کرلی کہ اس کی قربانی کرے گا یا خریدتے وقت قربانی کی نیت نہ کی ہو، پھر بعد میں قربانی کی نیت کی، تو اس سے اس پر قربانی واجب نہ ہوگی، کیونکہ خریدتے وقت نیت نہ کی، لہذا بعد کی نیت معتبر نہیں ہوگی ۔ (ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد9،صفحہ532،مطبوعہ کوئٹہ ) اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں لکھتےہیں:” فقیر اگر بہ نیت قربانی خریدے ،اس پر خاص اس جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ اگر جانور اس کی ملک میں تھا اور قربانی کی نیت کرلی یا خریدا،مگرخریدتے وقت نیت قربانی نہ تھی، تو اس پروجوب نہ ہوگا، غنی پر ایک اضحیہ خود واجب ہےاور اگر اورنذر بصیغہ نذر کرے گا ،تو وہ بھی واجب ہوگا۔ اس عبارت میں بھی یہی ہے کہ واجب بالنذر ہوجائے گا ،یعنی نذر کئے سے واجب ہوگا ،نہ کہ غنی پر مجرد خریداری سے۔“ (فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ451،رضا فاؤنڈیشن،لاھور) اسی طرح صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃبہار شریعت میں لکھتے ہیں:”بکری کا مالک تھا اور اوس کی قربانی کی نیت کر لی یا خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہ تھی، بعد میں نیت کر لی، تو اس نیت سے قربانی واجب نہیں ہوگی۔ “ (بھار شریعت ،جلد3،صفحہ332، مکتبۃ المدینہ،کراچی ) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟