کیا قربانی کی نیت سے پالا ہوا بکرا بیچ سکتے ہیں؟ |
مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Pin-5754 |
تاریخ اجراء:29ذیقعدۃ الحرام1439ھ12اگست 2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے بھائی صاحب نصاب نہیں ہیں ،لیکن ان کے پاس ایک بکرا ہے۔انہوں نے نیت یہ کی تھی کہ اس سال اس بکرے کی قربانی کروں گا،لیکن اب وہ اس بکرے کو بیچنا چاہتے ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس نیت کی وجہ سے ان پر قربانی لازم ہو چکی ہے یا نہیں اوران کا اب اس بکرے کو بیچنا کیسا؟ نوٹ:سائل نے وضاحت کی کہ ان کے بھائی نے وہ بکرا خریدا نہیں تھا ،بلکہ وہ بکرا گھر کا ہی ہے،جس پر انہوں نے قربانی کی نیت کی تھی اورقربانی کی کوئی منت بھی نہیں مانی تھی۔ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
پوچھی گئی صورت میں آپ کے بھائی شرعاً اس بکرے کو بیچ سکتے ہیں ،کیونکہ جو شخص صاحب نصاب نہ ہو (یعنی اس کے پاس سونا چاندی، روپیہ پیسہ یا حاجت اصلیہ سے زائد سامان یا یہ سب مل کر اتنے نہ ہوں کہ جن کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر بنے)،تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوتی اور ایسا شخص اگر کسی جانور کا پہلے سے مالک ہو اور اس پر قربانی کی نیت کر لے ،تو فقط اس نیت کی وجہ سے اس پر قربانی واجب نہیں ہو جاتی ،لہذا اس بکرے کو بیچ سکتے ہیں ۔البتہ آپ کے بھائی کی نیت بہت اچھی ہے ،ممکنہ صورت میں انہیں اس نیت کو پورا کرنا چاہیے، کہ اپنی اچھی نیت کو پورا کرنا صدقِ نیت کہلاتا ہے اور یہ صحابہ کرام اورصدیقین کا طریقہ ہے۔ فقیر اگر اپنے پاس موجود جانور کو قربان کرنے کی نیت کر لے ،تو اس وجہ سے اس پر قربانی واجب نہیں ہوتی۔چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:’’ولو كان فی ملك انسان شاة، فنوى ان يضحی بها او اشترى شاة ولم ينو الاضحية وقت الشراء،ثم نوى بعد ذلك ان يضحی بها لا يجب عليه سواء كان غنيا او فقيرا، لان النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر‘‘ترجمہ:اگر کسی شخص کی ملکیت میں بکری تھی اور اس نے اسے قربان کرنے کی نیت کر لی یا بکری خریدی اور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی ،پھر بعد میں قربانی کی نیت کر لی ،تو اس پر قربانی واجب نہیں ہو گی ،برابر ہے کہ وہ شخص غنی ہو یا فقیر ،کیونکہ نیت خریداری کے وقت نہیں تھی ،لہذا اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ (بدائع الصنائع،کتاب التضحیہ،ما یجب علی الغنی دون الفقیر،ج4،ص193،مطبوعہ کوئٹہ) اسی بارے میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’فقیر اگر بہ نیتِ قربانی خریدے،اس پر خاص اس جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ اگر جانور اس کی ملک میں تھا اورقربانی کی نیت کرلی یا خریدا، مگر خریدتے وقت نیت قربانی نہ تھی، تو اس پر وجوب نہ ہوگا۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج20،ص451،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور) اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’بکری کا مالک تھا اور اس کی قربانی کی نیت کر لی یا خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہ تھی، بعد میں نیت کر لی، تو اس نیت سے قربانی واجب نہیں ہوگی۔‘‘ (بھارِ شریعت،ج3،ص332،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟