بقدرِ نصاب مہر جو ابھی ادا نہیں کیا،کیا اس کی وجہ سے قربانی لازم ہوگی؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1652

تاریخ اجراء:03ذوالحجۃالحرام1440ھ/05اگست2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ جس شخص کے ذمہ بیوی کا مہرِ مؤجل(جوطلاق یاوفات کے وقت دینا ہوگا)دو لاکھ روپے ہوں ،توکیامہرکے دولاکھ نکالنے کے بعد اس کی قربانی کا نصاب شمارکیا جائے گایا مہر کی رقم نکالے بغیر شمار کیاجائے گا ؟ اور کیااس مہر کی وجہ سے بیوی  مالک نصاب سمجھی جائے گی اوراس پرقربانی واجب ہوگی یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں شوہر کی قربانی کا نصاب مہر کی رقم نکالے بغیر شمار کیا جائے گاکہ جس طرح مہرمؤجل شوہر پرزکوٰۃ  وا جب ہونے سے مانع نہیں اسی طرح قربانی واجب ہونے سے بھی  مانع نہیں ،لہذا اگر اس کے پاس صرف اتنا مال ہے ،جو قربانی کے نصاب تک پہنچتا ہے،تواس پر قربانی واجب ہوگی اور اگر مال نصاب سے کم ہے ،تو قربانی واجب نہیں ہو گی ۔نیز اس کی بیوی مہر(معجل ہو یامؤجل)کی وجہ سے مالک نصاب نہیں سمجھی جائے گی ،لہذا اگر بیوی کے پاس مہر کے علاوہ مال نصاب سے کم  ہے  ،تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی اور اگرمال  نصاب تک پہنچتا ہے ،تواس پر  قربانی واجب ہوگی۔

    مہر مؤجل شوہر پروجوبِ زکوٰۃ سے مانع نہیں،اس سےمتعلق درمختارمع ردالمحتار میں ہے :’’او مؤجلاً و الصحیح انہ غیر مانع‘‘ترجمہ:اور صحیح یہ ہے کہ مہر مؤجل وجوبِ زکوٰۃ سے مانع نہیں ۔

(ردالمحتار علی الدرالمختار ،کتاب الزکاۃ ،جلد3،صفحہ 177،مطبوعہ ملتان)

    مہر ( معجل ہو یامؤ جل) کی وجہ سے عورت مالک نصاب نہیں ہوگی ،اس سے متعلق عالمگیری میں ہے  : ’’والمرأۃ  تعتبر  موسرۃ  بالمھر اذا کان الزوج ملیاً  عندھما  وعلی قول  ابی حنیفۃ  رحمہ اللہ تعالی  الآخر لا تعتبر  موسرۃ بذلک ،قیل :ھذا الاختلاف بینھم فی المعجل  الذی یقال لہ بالفارسیۃ :دست پیمان ،و اما المؤجل  الذی سمی بالفارسیۃ :کابین ،فالمرأۃ لا تعتبر موسرۃ بذلک  بالاجماع ‘‘ترجمہ:جب شوہر مالدار  ہو ،توعورت کو مہر کی وجہ سے مالدار سمجھا جائے گاصاحبین علیہما الرحمۃ کے نزدیک اور امام اعظم علیہ الرحمۃ کے ایک قول کے مطابق عورت کو اس (مہر)کی وجہ سے مالدار نہیں سمجھا جائے گااورکہا گیا کہ یہ اختلاف مہر معجل کے بار ے میں ہے ،جسے فارسی میں ’’دست پیمان ‘‘ کہا جاتا ہے ،بہر حال مہر مؤجل  ،جسے فارسی میں ’’ کابین ‘‘ کہا  جاتا ہے ، اس  کی وجہ سے  عورت کو مالدار نہیں سمجھا جائے گا،اس پر اجماع ہے۔          

(عالمگیری،کتاب الاضحیۃ ،باب تفسیر ھا و رکنھا ،جلد5،صفحہ361،مطبوعہ  کراچی)

    مہر مؤجل شوہرپروجوبِ زکوٰۃ سے مانع نہیں ،اس سے متعلق فتوی رضویہ میں ہے:’’آج کل  عورتوں کا مہر عام طور پر مہر مؤخر ہوتا ہے ،جس کا مطالبہ بعد ِ موت یا طلاق ہوگا ۔مرد کو اپنے تمام مصارف میں کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ مجھ پر یہ دَین ( قرض ) ہے ،ایسا مہر مانع وجوبِ زکاۃ نہیں ہوتا۔‘‘

 (فتاوی رضویہ ،جلد 10،صفحہ143،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    بہار شریعت میں ہے :’’جو دَین میعادی ہو ،وہ مذہبِ صحیح میں وجوبِ زکاۃ کا مانع نہیں  ۔چونکہ عادۃً  دَین  مہر کا مطالبہ نہیں ہوتا ،لہذا اگرچہ شوہر کے ذمہ کتنا ہی دَین  مہر ہو،جب وہ مالکِ نصاب ہے ،زکاۃ واجب ہے۔خصوصاً مہر مؤخر جو عام طور پر یہاں رائج ہے،جس کی ادا کی کوئی میعاد معین نہیں ہوتی ،اس کے مطالبہ کا تو عورت کو اختیار ہی نہیں ،جب تک موت یا طلاق واقع  نہ ہو۔‘‘

(بھار شریعت،جلد1،حصہ5،صفحہ879،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

    مہر  (معجل ہو یامؤجل) کی وجہ سے عورت مالک نصاب نہیں ہوگی ،اس  سے متعلق بہار شریعت میں ہے :’’عورت کا مہر  شوہر کے ذمہ باقی ہے اور شوہر مالدار ہے،تو اس مہر کی وجہ سے عورت کو مالکِ نصاب نہیں مانا جائے گا ،اگرچہ مہر معجل ہو اوراگر عورت کے پاس اس کے سوا بقدر ِنصاب مال نہیں ہے ،تو عورت پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔‘‘

(بھار شریعت ،جلد3،حصہ15،صفحہ333،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم