ایک ، ڈیڑھ تولہ سونا مِلکیت میں ہو ، تو قربانی کا حکم ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1657

تاریخ اجراء:27ذیقعدۃالحرام1440ھ/31جولائی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قربانی کا نصاب کیا ہے ؟ میری ملکیت میں صرف ایک سے ڈیڑھ تولہ سونا ہے ،  اس کے علاوہ چاندی یا رقم  وغیرہ کچھ بھی میری ملکیت میں نہیں ہے ،یہاں تک کہ روز مرہ کے اخراجات کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، تو کیا ایسی صورتِ حال میں مجھ پر قربانی لازم ہوگی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یاسوناچاندی نصاب سےکم ہوں ، لیکن جس قدر ہیں ، ان دونوں کو ملا کر یا سونے یا چاندی کو کسی دوسرے مال کے ساتھ ملا کر ، اُن دونوں کی مجموعی قیمت عید الاضحی کے ایام میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو ، یوں ہی حاجتِ اصلیہ(یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے،جیسے رہائش گاہ،خانہ داری کےوہ سامان جن کی حاجت ہو،سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی)سے زائد اگرکوئی ایسی چیزمِلکیت میں ہو ، جس کی قیمت تنہا یا سونے یا چاندی کے ساتھ ملا کر  ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہو ، تووہ نصاب کامالک ہےاوراُس پر قربانی واجب ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ پر قربانی لازم نہیں ہوگی ، کیونکہ آپ کے پاس صرف سونا ہے ، ساتھ چاندی ، رقم ، پرائز بانڈز یا کوئی اور ایسا مال نہیں ہے ، جس کے ساتھ مل کر مجموعی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو ۔

    قربانی واجب ہونے کے نصاب سے متعلق بدائع الصنائع میں ہے :”فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون فی ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شیء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه ومايتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر“ترجمہ:(قربانی میں)مالداری کااعتبارہوناضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم(ساڑھےباون تولہ چاندی)یابیس دینار(ساڑھے سات تولہ سونا)ہوں یارہائش،خانہ داری کے سامان،کپڑے،خادم،گھوڑا،ہتھیاراوروہ اشیاء جن کے بغیرگزارہ نہ ہو،ان کےعلاوہ کوئی ایسی چیزہو، جواس(دوسودرہم یابیس دینار)کی قیمت کوپہنچتی ہواوریہ ہی صدقہ فطرکانصاب ہے۔

(بدائع الصنائع،کتاب التضحیۃ،جلد4،صفحہ196،مطبوعہ کوئٹہ)

    سونے کو چاندی کے ساتھ ملانے کے متعلق تبیین الحقائق میں ہے : ”ويضم الذهب الى الفضة بالقيمة فيكمل به النصاب لأن الكل جنس واحد“ترجمہ:سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت  کے اعتبار سے ملاکر نصاب مکمل کیاجائے گا، کیونکہ یہ آپس میں ہم جنس ہیں ۔

(تبیین الحقائق ، کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃالمال ، جلد 2 ، صفحہ 80 ،مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ”قربانی واجب ہونے کے لیے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصل حاجتوں کے علاوہ 56 روپیہ(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے دور میں رائج چاندی کا نصاب) کے مال کا مالک ہو، چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت، کاشتکار کے ہل بیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ، ان کا شمار نہ ہو۔ “

(فتاوی رضویہ،جلد 20،صفحہ 370 ، رضافاونڈیشن ، لاھور)

    صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃاللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں:”جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کےسوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو ، جس کی قیمت دوسو درہم ہو ، وہ غنی ہے ، اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان ، جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ، ان کے سوا جو چیزیں ہوں ، وہ حاجت سے زائد ہیں۔“

(بہارِشریعت،جلد 3،صفحہ 333،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

    نوٹ : مذکورہ بالا مسئلے میں فتویٰ تو یہی ہے ، لیکن بہت سے لوگ اپنی حاجتِ اصلیہ سے زائد مال کو شمار کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں ، کیونکہ عام طور پر کچھ نہ کچھ حاجت اصلیہ سے زائد چیزیں موجود ہوتی ہی ہیں ، جن کو سونے یا چاندی کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے ،تو قربانی کا نصاب  بن جاتا ہے ، لیکن لوگ توجہ نہیں کرتے۔  جیسے اضافی کپڑے، جوتے  یا گھر میں ڈیکوریشن کا سامان یا تفریح کےلیے خریدا گیا ٹی وی وغیرہا ، لہٰذا ان چیزوں کا ضرور خیال رکھا جائے اور کسی عالمِ دین سے مل کر معلومات کر لی جائے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم