قرعہ اندازی اور قربانی |
مجیب:مولانا شفیق مدنی زید مجدہ |
مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Aqs-1372 |
تاریخ اجراء:24ذیقعدۃالحرام1439ھ/07اگست2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک دکاندار نے لوگوں کے لیے ایک پیکج کا اعلان کیا ہے کہ جو اس سے فریج یا دیگر چیزیں خرید ے گا ، وہ اس کا نام قرعہ انداز ی میں شامل کریں گے اور قرعہ اندازی کا ٹوکن پچاس روپے کا الگ سے لینا ہوگا ،جس کا نام قرعہ میں نکل آیا ، اسے بکرا یا گائے وغیرہ دی جائے گی اور جس کا نام نہ نکلا ، اس کے پچاس روپے واپس نہیں ملیں گے ، تو یہ اسکیم شرعا کیسی ہے ؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
پوچھی گئی صورت میں یہ انعامی طریقہ کار جوا ہے ، جوبلا شک و شبہ ناجائز وحرام ہے ،کیونکہ جس کا نام قرعہ انداز ی میں نکلے گا ، وہ تو انعام حاصل کرے گا اور جس کا نام نہیں نکلا ، اس کے پچاس روپے ضائع ہوگئے ،تو یہ اپنے مال کو خطرے پر ڈالنا ہے کہ زیادہ نفع والی چیز ملے گی یا اپنا مال ہی چلا جائے گا اور جوا اسی کو کہتے ہیں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ علم ِدین نہ ہونے کی وجہ سے کس طرح قربانی جیسی عبادت والے کام میں بھی شیطان نے لوگوں کو حرام و گناہ میں مبتلا کردیا ہے ، لہٰذا دکاندار پر لازم ہے اس قرعہ اسکیم کو ختم کرے اور جس جس سے پچاس روپے بطور ٹوکن لیے ہیں ، ان کو واپس کرے ۔ اللہ جل جلالہ قرآن مجیدمیں جوئے کی حرمت کے بارے میں ارشادفرماتاہے۔:﴿ یَاۤ اَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیۡطَانِ فَاجْتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ﴾ترجمۂ کنزالایمان:’’اے ایمان والو !شراب اور جوا اور بت اورپانسے ناپاک ہی ہیں ، شیطانی کام ۔ تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (القرآن، سورۃ المائدہ، آیت90 ) باطل طریقے پر ایک ،دوسرے کے مال کھانے کو سختی سے منع فرمایا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِخداوندی ہے : ﴿ وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبَاطِلِ ﴾ ترجمہ:ایک دوسرے کامال نا حق طور پر نہ کھاؤ۔‘‘ (القرآن ،سورۃ البقَرۃ،آیت 188) مبسوط میں جوئے کی تعریف سے متعلق ہے:’’تعلیق استحقاق المال بالخطر قمار ،والقمار حرام فی شریعتنا‘‘ترجمہ:مال کے استحقاق کو خطرے کے ساتھ معلق کرنا جوا ہےاور جوا ہماری شریعت میں حرام ہے۔ ( المبسوط للسرخسی،کتاب الاباق،ج11،ص20،مطبوعہ کوئٹہ) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟