مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-8020
تاریخ اجراء:13 صفر المظفر1444ھ/10 ستمبر 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایک مشہور
فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے کہ جو
شخص سوتے ہوئے میری زیارت کرے گا، عنقریب وہ جاگتے ہوئے
بھی مجھے دیکھے گا۔ اِس روایت کے متعلق میرے
دوست کا سوال ہے کہ ہم بہت سارے افراد کے متعلق سنتے ہیں کہ اُسے حضور صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی ہے، لیکن
بعد میں اُسے جاگتے ہوئے بھی
دیدار ہوا ہے، ایسا نہیں
سنا، یعنی جاگتے ہوئے دیدار نصیب ہونے کے واقعات
انتہائی کم ہیں۔ الغرض سوال یہ ہے کہ مذکور حدیث کا
کیا مطلب ہو گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان
کہ ” جس شخص نے سوتے ہوئے
میری زیارت کی، عنقریب وہ جاگتے ہوئے بھی
مجھے دیکھےگا۔“ بلاشبہ حق ہے۔ محدثین نے علمِ اصولِ
حدیث کی رُو سے اِس
روایت کو ”صحیح “ قرار دیا۔ یہ اور اِس طرح
کی دیگر روایات کو نقل کرنے کے لیے باقاعدہ باب
بندی کی۔ شارِحینِ حدیث نے شَرْح و بَسط سےاِس
حدیث کی شرح، معانی اور اَسرار و رُموز بیان فرمائے۔
درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں واقعات اِس حدیث مبارک کی
حَقَّانیت اور ثبوت پر دلالت کرتے ہیں۔ جہاں تک سوال میں
بیان کردہ بات کا تعلق ہے کہ جاگتے
ہوئے دیدار ہونے کا کیا مطلب ہے؟ تو اِس کی محدثین نے درج ذیل صورتیں بیان
فرمائی ہیں۔
(1)” فسیرانی
فی الیقظۃ “ کا مطلب
یہ ہے کہ ”فکانما فی
الیقظۃ “ یعنی گویا اُس نے مجھے
جاگتے ہوئے ہی دیکھا ، یعنی جو خواب میں
دیکھتا ہے، وہ جاگتے ہوئے نہیں دیکھے گا، بلکہ خواب میں
دیکھنا حقیقت میں دیکھنے کے مترادف ہے۔
(2)خواب
میں دیکھنے والا بروزِ قیامت جاگتے ہوئے دیکھے گا،
لیکن اِس جواب پر یہ اعتراض وارِد ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تو سب
ہی دیدارِ مصطفیٰ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مشرف ہوں گے، خواہ کسی نے دنیا
میں خواب کے اندر دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو۔ اِس
اِعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اِس خواب میں زیارت کا شرف حاصل
کرنے والے کے لیے قیامت میں دیکھنا یوں ہو گا کہ
یہ بالکل قربِ مصطفیٰ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں آ کر دیدارِ خاص کا لطف پائے گا اور شفاعتِ حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مشرف
ہو گا۔ دیدار کایہ شرف ہر ایک کا حصہ نہ ہو گا۔ اِسی
اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن اس شخص کو بلاحجابِ
دیدارِ مصطفیٰ نصیب ہو گا، کیونکہ بعض دیگر
گنہگاروں کو دیدار تو ضرور نصیب ہو گا، مگر حجاب حائل ہو گا اور
دیدارِ کامل کا حصول نہیں
ہوگا۔
(3)”فسیرانی فی الیقظۃ“ کی بشارت نبی اکرم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات کے زمانہ سے
خاص ہے، یعنی جو شخص نبی اکرم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں اسلام لایا، مگر آپ
کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوا، البتہ خواب میں دیدار کر
لیا، تو خواب میں دیدار ہونا، اِس اَمر کی دلیل ہے کہ یہ ضرور نبی اکرم
صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی میں جاگتے ہوئے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی بارگاہ میں حاضر ہو گا اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی
کرے گا۔اِس جواب پر بھی اشکال وارِد ہوتا ہے کہ جب حدیثِ مبارک
میں ہی کسی زمانے کی تخصیص نہیں کی
گئی، بلکہ مطلقاً”فسیرانی
فی الیقظۃ“
کی بشارت کو عام رکھا گیا ہے ،تو ہم کس بنیاد پر تخصیص
پیدا کر سکتے ہیں؟ لیکن جواب یہ ہے کہ علماء
ربانیین اپنی علمی وسعت و روحانی عظمت
سے اس طرح کے معاملات میں ایسی توجیہات کرسکتے ہیں۔
(4) ایک
احتمال یہ بھی ہے کہ حدیث کا معنی یوں ہو گا کہ جو
خواب میں زیارت کرے ،تو وہ جاگتے ہوئے آپ کے خاص آئینےمیں
آپ کی صورت دیکھے گا، جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے حکایت ہے کہ آپ نے حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خواب
میں دیکھا، تو بعض امہات المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْھن کو آ کر خواب میں زیارتِ
مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قصہ
بیان کیا، چنانچہ ایک ام المؤمنین(حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہا) نے آپ
کے سامنے آئینہ مصطفیٰ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رکھا، تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُمَاکو اُس میں اپنی جگہ ، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ
مبارکہ نظر آیا۔ یہ احتمال
یا جواب بہت بعید ہے،
کیونکہ اِس صورت میں تو
جاگتے ہوئے دیدار صرف اُسی کے لیے ممکن ہو گا، جس کی
آئینہ مصطفیٰ صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک رسائی ہو اور یہ انتہائی
بعید اَمر ہے۔
(5)ساداتِ
صوفیہ نے فرمایا کہ خواب
میں دیکھنے والا بشارتِ حدیث کی عمومیت کے مطابق
جاگتے ہوئے دنیا میں ہی دیکھے گا، مگر بشارتِ حدیث کی
کچھ شرائط یہ ہیں کہ جو خواب میں دیدارِ
مصطفیٰ کا شرف پائے، پھر دوبارہ آپ کے دیدار کا مشتاق ہو اور
شوقِ دیدار اپنی شدت پر رہے، دیدارِ حبیب کو آنکھیں
متمنی و مشتاق رہیں، تو
ایسا شخص جاگتے ہوئے بھی دیدارِ مصطفیٰ سے مشرف ہو
گا، جیسا کہ کثیر اصحابِ باطن، اہل اللہ، فنا فی الرسول، اہلِ
مراتب ، صاحبِ سوز اور خاص عاشقانِ حبیب صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت ہے، کہ اُنہیں یہ
لذتیں جاگتے ہوئے بار بار
ملتی رہی ہیں۔
آخری
یعنی پانچواں جواب ہی
ایسا ہے کہ جو نہایت ہی واضح اور شکوک وشبہات سے پاک ہے،
جیسا کہ ضیغمِ اسلام علامہ سید احمد سعید
کاظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1407ھ/1986ء)نے بیان کیا ہے۔
امام ابو
عبداللہ محمد بن اسماعیل
بخاری رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:256ھ/870ء)
روایت کرتے ہیں:’’من رآني في المنام
فسيراني في اليقظة‘‘ ترجمہ: جس شخص نے سوتے ہوئے میری زیارت
کی، عنقریب وہ جاگتے ہوئے بھی مجھے دیکھے گا۔(صحیح
البخاری، جلد9، باب من رأى النبي
صلى اللہ عليه وسلم في المنام، صفحہ 33، مطبوعہ دار طوق النجاۃ،
بیروت)
تمام شروحات کا مجموعی
ومفہومی کلام اوپر تمہید
میں بیان کیا جا چکا، اِس لیے عبارات کے تراجم نہیں
کیے جائیں گے۔
شارِح بخاری، علامہ
بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’معنى لفظ البخاري أن المراد أهل عصره
أي: من رآه في المنام وفقه اللہ للهجرة إليه والتشرف بلقائه أو يرى تصديق تلك
الرؤيا في الدار الآخرة، أو يراه فيها رؤية خاصة في القرب منه والشفاعة‘‘(عمدۃ
القاری، جلد24، صفحہ140، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
حافظ ابن حجر
عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:852ھ/1449ء) لکھتے ہیں:’’الحاصل من الأجوبة ستة أحدها أنه على
التشبيه والتمثيل ودل عليه قوله في الرواية الأخرى فكأنما رآني في اليقظة ثانيها
أن معناها سيرى في اليقظة تأويلها بطريق الحقيقة أو التعبير ثالثها أنه خاص بأهل
عصره ممن آمن به قبل أن يراه رابعها أنه يراه في المرآة التي كانت له إن أمكنه ذلك
وهذا من أبعد المحامل خامسها أنه يراه يوم القيامة بمزيد خصوصية لا مطلق من يراه
حينئذ ممن لم يره في المنام سادسها أنه يراه في الدنيا حقيقة ويخاطبه ‘‘(فتح الباری ،
جلد 12 ، صفحہ 383، دار
المعرفۃ ، بیروت )
اِس حدیث مبارک کے تحت محمد بن علی شنوانی شافعی
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1233ھ/ 1817ء) اِشکال وجواب
کی صورت میں تفصیلی کلام کرتے ہیں:’’استشكل بأنه لا يتأتى أن كل من رآه في المنام يراه في
اليقظة وأجيب بأجوبة منها أن قوله في
اليقظة : أي في يوم القيامة واعترض ذلك
الجواب بأن كل أحد يراه في القيامة سواء كان رآه في المنام أو لم يره وأجيب بأن المراد يراه في القيامة رؤية خاصة بأن
يكون قريبا من المصطفى صلى اللہ عليه وسلم و يشفع له في رفع الدرجات فقد حصل له ما
لم يحصل لغيره ، وأجيب بأن المعنى يراني في اليقظة من غير حجب إذ لا يبعد أن يعاقب
بعض المذنبين بالحجب عنه وأجيب أيضا بأن
هذا الحديث مخصوص بمن أسلم في عهد النبي صلى اللہ عليه وسلم وزمنه ولم يهاجر إليه
فرآه في المنام ، فهذا يدل على أنه لا بد من اجتماعه بالمصطفى صلى اللہ عليه وسلم
يقظة في حياة النبي صلى اللہ عليه وسلم، ورد ذلك الجواب بأن النبي صلى اللہ عليه
وسلم لا يقصد بحديثه التخصيص ، بل يقصد عموم النفع ، وأيضا الأصل عموم اللفظ . وقال
السادة الصوفية : يراه يقظة في دار الدنيا ، فالمعنى حينئذ أن من رآه مناما وكان
مشتاقا واشتد شوقه رآه في اليقظة كما وقع لكثير من الأولياء منهم الشيخ أبو العباس
المرسى قال : لو احتجبت عنه طرفة عين ماعددت نفسى من المسلمين ، وكذلك سيدى ابراهيم
المتبولي كان ينظر النبي صلى اللہ عليه وسلم يقظة ، وكذلك الشيخ السحيمي وشيخنا البراوي
، نفعنا اللہ بالجميع، ويحتمل أن يكون معنى الحديث أن من رآه مناما فانه يرى صورته
صلى اللہ عليه وسلم في اليقظة ، لكن في مرآته كما حكى عن ابن عباس أنه رآه مناما
فقص ذلك على بعض أمهات المؤمنين فأخرجت له مرآته صلى اللہ عليه وسلم فرأى فيها
صورته صلى اللہ عليه وسلم ولم يرصورة نفسه ، وهذا الاحتمال مع بعده إنما يكون من
أمكنه رؤية مرآته صلى اللہ عليه وسلم‘‘(حاشیۃ الشنوانی علی مختصر ابن
ابی جمرۃ، صفحہ 302، مطبوعہ مَطبعۃ المصطفیٰ
البابی واولادہ، مصر)
ضیغمِ
اسلام علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہویرَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1407ھ/1986ء)لکھتے ہیں:’’حدیث میں
یہ اِشکال ہے کہ فی الواقع ایسا نہیں ہوتا ، کہ ہر وہ شخص
جس نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خواب میں دیکھا ہو، وہ بیداری
میں بھی حضور صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھ لے۔اِس کے متعدد جوابات
دیے گئے ہیں، لیکن محققین کے نزدیک صرف ایک
ہی جواب ایسا ہے، جو نہایت ہی واضح اور شکوک وشبہات سے
پاک ہے اور وہ جواب ساداتِ صوفیہ رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہمنے
دیا ہے، جو شیخ شنوانی مصری
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1233ھ/ 1817ء) نے پسند فرمایا ہے۔(شیخ
شنوانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا کلام اوپر گزر چکا۔) (مشکلات الحدیث، صفحہ 107، مطبوعہ ورلڈ ویو
پبلشرز)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟