مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12967
تاریخ اجراء: 06صفر المظفر1445 ھ/24اگست 2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ہم
قرآنِ پاک کی تلاوت کررہے ہوں اور کوئی ہمیں سلام کرلے تو کیا
اُسی وقت جواب دینا واجب ہوگا یا پھر تلاوت مکمل کرلینے
کے بعد بھی اُس سلام کا جواب دے
سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں
دورانِ تلاوت کیے گئے سلام کا جواب دینے یا نہ دینے کا آپ
کو اختیار ہے، البتہ یہاں جواب دینا بہر صورت واجب نہیں۔
تلاوت کرنے والے شخص کو کسی
نے سلام کیا تو اس پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں۔ جیسا
کہ تبیین الحقائق، بحر الرائق، فتاوٰی شامی وغیرہ
کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للآخر“ قال: یکرہ السلام علی
المصلی، و القاریء، و الجالس للقضاء او البحث فی الفقہ،
او التخلی؛ ولو سلم علیھم لا یجب علیھم الرد؛ لانہ فی
غیر محلہ اھ۔ و مفادہ ان کل محل لا یشرع فیہ السلام
لا یجب ردہ۔ وفي شرح الشرعة: صرح الفقهاء بعدم وجوب الرد في بعض
المواضع: القاضي إذا سلم عليه الخصمان، والأستاذ الفقيه إذا سلم عليه تلميذه
أو غيره أوان الدرس، وسلام السائل، والمشتغل بقراءة القرآن، والدعاء
حال شغله، والجالسين في المسجد لتسبيح أو قراءة أو ذكر حال التذكير اهـ“یعنی صاحبِ بحر فرماتے ہیں کہ نمازی، قاری،
لوگوں میں فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھے ہوئے ، فقہی
مسائل میں تکرار کرنے والے یا بیت الخلاء میں مشغول شخص
کو سلام کرنا مکروہ ہے ۔ اگر کوئی
انہیں سلام کرلے تو ان پر جواب دینا واجب نہیں، کیونکہ یہ
غیر محل میں سلام کرنا ہے الخ۔ اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا
کہ ہر وہ محل جہاں سلام مشروع نہیں تو وہاں اس کا جواب دینا بھی
واجب نہیں۔ "شرح الشرعہ" میں مذکور ہے کہ فقہائے کرام
کی تصریحات کے مطابق بعض مواقع پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں
ہے، جیسا کہ قاضی کہ جب مدعی اور ملزم اسے سلام کریں، فقیہ
استاد کہ جب اسے شاگرد یا کوئی اور شخص دورانِ درس سلام کرے، بھیک مانگنے والے کا سلام
کرنا، قرآن کی تلاوت میں مشغول شخص کو سلام کرنا، دعا میں مشغول
شخص کو سلام کرنا، مسجد میں تسبیح، قراءت یا آخرت کا ذکر کرنے
کے لیے بیٹھے ہوئے افراد کو سلام کرنا الخ۔(رد
المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، ج
01، ص 618، مطبوعہ بیروت)
مزید ایک
دوسرے مقام پر علامہ شامی علیہ
الرحمہ نقل فرماتے ہیں:”و فی الاختیار: من جلس یفقہ
تلامذتہ و یقرئھم القرآن فدخل علیہ داخل فسلم وسعہ ان لا یردہ؛
لانہ انما جلس للتعلیم لا لرد السلام اھ۔“ یعنی
اختیار میں ہے کہ جو شخص اپنے شاگردوں کو فقہ پڑھا رہا ہو یا وہ
انہیں قرآن پڑھا رہا ہو، پھر کوئی آنے والا انہیں سلام کرے تو
ان کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کے سلام کا جواب نہ دیں، کیونکہ وہ تعلیم
حاصل کرنے کے لئے بیٹھے ہیں سلام کا جواب دینے کے لئے نہیں۔(رد
المحتار مع الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع،
ج 06، ص 415 ، مطبوعہ بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے
جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ” جن صورتوں میں سلام
مکروہ ہے جیسے مصلی یا تالی یا
ذاکر یا مستنجی یا آکل پر ان لوگوں کو اختیار ہے کہ
جواب دیں یا نہ دیں ۔ واللہ تعالٰی
اعلم۔ “ (فتاوٰی رضویہ، ج22،ص419، رضا
فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے:”
کوئی شخص تلاوت میں مشغول ہے یا درس و تدریس یا علمی
گفتگو یا سبق کی تکرار میں ہے تو اس کو سلام نہ کرے۔ اسی
طرح اذان و اقامت و خطبہ جمعہ و عیدین کے وقت سلام نہ کرے۔ سب
لوگ علمی گفتگو کررہے ہوں یا ایک شخص بول رہا ہے باقی سن
رہے ہوں،دونوں صورتوں میں سلام نہ کرے، مثلاً عالم وعظ کہہ رہا ہے یا
دینی مسئلہ پر تقریر کررہا ہے اور حاضرین سن رہے ہیں،
آنے والا شخص چپکے سے آکر بیٹھ جائے سلام نہ کرے۔ عالمِ دین تعلیم
علمِ دین میں مشغول ہے، طالب علم آیا تو سلام نہ کرے اور سلام کیا
تو اس پر جواب دینا واجب نہیں۔۔۔۔۔ جو
شخص ذکر میں مشغول ہو اس کے پاس کوئی شخص آیا تو سلام نہ کرے
اور کیا تو ذاکر (ذِکر کرنے والے)پر جواب واجب نہیں۔ “ (بہارشریعت
، جلد 03، صفحہ462، مکتبۃ
المدینہ، ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟