Tarteeb e Quran Nuzool e Quran Ke Mutabiq Kyun Nahi Rakhi Gai ?

ترتیبِ قرآن نزولِ قرآن کے مطابق کیوں نہیں رکھی گئی ؟

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1366

تاریخ اجراء: 13رجب المرجب1445 ھ/25جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جب قرآن پاک سورۂ علق سے نازل ہونا شروع ہوا ، تو سورۂ بقرہ سے کیوں ترتیب دیا گیا ؟ اگر کوئی اعتراض کرے کہ جس طرح اللہ پاک نے نازل فرمایا تھا اسی ترتیب کے مطابق کیوں نہیں رکھا گیا، تو اس کا کیا جواب دیا جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جواب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ دین اسلام یا اس کی تعلیمات پر اعتراضات کرنے، ان کو اپنی عقل سے پرکھنے کے بجائے ان کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے ۔ اگر کسی جگہ کوئی بات پوچھنی ہو تو اس کے لیے مناسب طریقہ ، مناسب الفاظ استعمال کیے جائیں ورنہ کئی صورتوں میں بندہ کفر تک پہنچ سکتا ہے ۔

   قرآن کریم کی آیات مختلف مواقع پر نازل ہوئیں ، اس میں کوئی اختلاف نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے پاس قرآن کریم کی ایک ترتیب پہلے سے موجود تھی جس کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آیت نازل ہونے کے بعد حکم فرمادیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں مقام پر رکھا جائے۔ یہ سب معاملہ وحی الٰہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اتباع میں وقوع پذیر ہوا ، کسی صحابی نے اپنی طرف سے آیات کی ترتیب کو تبدیل نہیں کیا۔

   علامہ جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الاتقان  میں تحریر فرماتے ہیں:”وقال البغوي في شرح السنة: الصحابة رضي الله عنهم جمعوا بين الدفتين القرآن الذي أنزله الله على رسوله من غير أن زادوا أو نقصوا منه شيئا خوف ذهاب بعضه بذهاب حفظته فكتبوه كما سمعوا من رسول الله صلى الله عليه وسلم من غير أن قدموا شيئا أو أخروا أو وضعوا له ترتيبا لم يأخذوه من رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلقن أصحابه ويعلمهم ما نزل عليه من القرآن على الترتيب الذي هو الآن في مصاحفنا بتوقيف جبريل إياه على ذلك وإعلامه عند نزول كل آية أن هذه الآية تكتب عقب آية كذا في سورة كذا فثبت أن سعي الصحابة كان في جمعه في موضع واحد لا في ترتيبه فإن القرآن مكتوب في اللوح المحفوظ على هذا  الترتيب أنزله الله جملة إلى السماء الدنيا ثم كان ينزله مفرقا عند الحاجة وترتيب النزول غير ترتيب التلاوةوقال ابن الحصار: ترتيب السور ووضع الآيات مواضعها إنما كان بالوحي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ضعوا آية كذا في موضع كذا " وقد حصل اليقين من النقل المتواتر بهذا الترتيب من تلاوة رسول الله صلى الله عليه وسلم ومما أجمع الصحابة على وضعه هكذا في المصحف“یعنی امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح السنہ میں فرمایا: قرآن کے بعض حفاظ کے دنیا سے چلے جانے کے سبب قرآن پاک کے چلے جانے کے خوف کے باعث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس قرآن کو دو گتوں کے درمیان جمع فرما دیا جو اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ  واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمایا نہ اس میں کچھ اضافہ کیا اور نہ کمی کی ، پس انہوں نے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم سے سنا ویسا لکھ دیا اس میں کسی چیز کو آگے پیچھے نہیں کیا ، نہ ہی اس کی ایسی کوئی ترتیب وضع کی جو انہوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  سے  نہ لی ہو اور ہر آیت کے نزول کے وقت جبریل کے بتانے و خبر دینے کے سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہٖ وسلم  اپنے اصحاب کو تلقین کرتے تھے اور صحابہ کرام کو وہ ترتیب سکھاتے تھے جس پر قرآن نازم ہوا  جو کہ اب ہمارے مصاحف میں ہے  کہ یہ آیت    فلاں سورت میں فلاں آیت کے بعد لکھی جائے گی ، تو ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کی کوشش قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے میں تھی نہ کہ اس کی ترتیب میں کیونکہ قرآن پاک لوحِ محفوظ میں اسی ترتیب پر مکتوب ہے جس کو اللہ پاک نے ایک ساتھ آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا پھر وقتِ حاجت الگ الگ اس کو نازل فرماتا رہا،اور ترتیبِ نزول ترتیب تلاوت کے علاوہ ہے۔اور ابن الحصار نے فرمایا:سورتوں کی ترتیب اور آیات کو ان کی جگہ رکھنا وحی کے سبب ہوتا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے تھے : اس آیت کو فلاں فلاں جگہ رکھ دو ۔ اور اس ترتیب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تلاوت کے مطابق ہونے کا یقین، نقلِ متواتر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے اسی ترتیب کے مطابق مصحف میں درج کرنے کے اجماع سے حاصل ہوا۔(الاتقان فی علوم القرآن، صفحہ96،دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم