مجیب:مفتی ابو محمد علی
اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Gul-3069
تاریخ اجراء: 04جمادی الاخری1445ھ/20دسمبر2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عوام الناس میں
یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ تین چیزیں
جب دی جائیں، تو ان کو منع نہیں کرنا چاہیے۔وہ تین
چیزیں یہ ہیں: (1)تکیہ (2)دودھ(3)خوشبو۔کیا
یہ بات درست ہے؟اور کیاایسی کوئی روایت کتبِ
احادیث میں موجود ہے؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسلمان کئی مواقع
پر آپس میں ملاقات کرتے ہیں،
ملاقات کے دوران شریعت مطہرہ نے آپس میں ایک دوسرے کو تحفہ
دینے کو پسند کیا ہے۔کئی احادیث کریمہ
میں تحفہ دینے کی ترغیب موجود ہے، البتہ تحفہ دو طرح کا
ہوتا ہے ،ایک وہ جو اعلیٰ قیمت کا ہو، تو اس کو
لینے کے بعد عموماً قدرشناس لوگ اس کی قدرکرتے ہوئے اس کا بدلہ
بھی دیتے ہی ہیں
،ایسے تحفے لینا یا دینا کئی لوگوں پر دشوار اور
بھاری ہوسکتا ہے ، مگر دوسرا وہ تحفہ ہے جس کی قیمت اتنی
زیادہ نہیں ہوتی اور ایسا تحفہ دینے یا
لینے والے پر کوئی بوجھ بھی نہیں ہوتا ،اس لیے ان
معمولی تحفوں کو شکریہ کے ساتھ قبول کرناچاہیے ، واپس نہیں کرنا چاہیے کہ واپس کرنے
میں تحفہ دینے والے کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے ،جبکہ
قبول کرنے میں میزبان کو خوشی محسوس ہوتی ہے اور
کسی مسلمان مومن کا دل خوش کرنے میں ثواب کمانے کا موقع بھی
نصیب ہوتا ہے۔اس مناسبت سے
کتب احادیث میں یہ
حدیث پاک موجود ہے، جس میں یہ
بیان کیا گیا ہے کہ تین چیزیں (1) تکیہ(2) دودھ (3) تیل ، جبکہ
بعض نے
تیل سے مراد خوشبو لیا
ہے ، جب کسی شخص کو
پیش کی جائیں، تو ان کو منع نہ کرو۔
شارحین حدیث رحمۃ اللہ
علیھم نے اس کی شرح بیان کرتے ہوئے فرمایا:اس
کی وجہ یہ ہے کہ اس
میں عام طور پر اظہارِ احسان کم ہوتا ہے اور اگر ان چیزوں کو قبول نہ
کیا جائے، تو اس سے سامنے والے شخص کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ
ہے، لہٰذا جب کسی شخص کو یہ چیزیں بطور تحفہ دی جائیں، تو قبول کر
لینی چاہیے، انکار نہیں کرنا چاہیے۔
جامع ترمذی
شریف میں ہے :”عن ابن عمر ، قال: قال رسول اللہ صلى
اللہ عليه وسلم: ”ثلاث لا ترد:
الوسائد، والدهن، واللبن ،الدهن:
يعنی به الطيب. هذا حديث غريب “ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی
اللہ عنہما سے روایت ہے،
فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین چیزیں واپس
نہ کی جائیں:تکیہ ،تیل اور دودھ ۔تیل سے مراد
خوشبو ہے ۔یہ حدیث غریب ہے۔(سنن الترمذی، جلد 5، صفحہ 108، حدیث
2799، مطبوعہ مصر)
علامہ علی قاری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں ہے:” أي: لا ينبغي أن ترد لقلة منتها وتأذي المهدي إياها (الوسائد والدهن واللبن)
قال الطيبي رحمہ اللہ :” يريد أن يكرم الضيف بالوسادة والطيب واللبن، وهي
هدية قليلة المنة فلا ينبغي أن ترد “فكأنه
حمل الدهن على الطيب وعبر عنه بالطيب، والأظهر أن المراد به مطلق الدهن لأن العرب
تستعمله في شعور رءوسهم “
ترجمہ : کیونکہ ان چیزوں
میں اظہارِ احسان کم ہوتا ہےاور اس سے تحفہ دینے والے کو تکلیف
بھی ہوتی ہے، لہذا ان کو واپس کرنا، مناسب نہیں۔ علامہ طیبی
رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بات سے مقصود یہ ہے کہ
تکیہ، دودھ اور خوشبو سے مہمان کا
اکرام کیا جائے اور اس میں بوجھ
کم ہوتا ہے ، لہذا ان کو واپس کرنا، مناسب نہیں، گویا کہ تیل
کوخوشبو پر محمول کرتے ہوئے تیل سے تعبیر کیا گیا ہے، حالانکہ
اظہر یہ ہے کہ اس سے مراد مطلق طور پر تیل ہو ، کیونکہ عرب لوگ
اپنے سر کےبالوں میں تیل
استعمال کرتے ہیں۔(مرقاۃ
المفاتیح، جلد5، صفحہ2013، مطبوعہ بیروت)
علامہ مظہر الدین مظہری حنفی رحمۃ
اللہ علیہ اس طرح کی حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے
فرماتے ہیں: ”يعني:
إذا أعطاكم أحد وسادة لتجلسوا عليها أو تتكئوا عليها فاقبلوها، وكذلك إذا أعطاكم
أحد طيبا أو لبنا فاقبلوه؛ لأن المنة فيهن قليل، ولأنكم لو لم تقبلوا هذه الأشياء
يتأذى المعطي منكم، ويحصل بينكم بغض وعداوة “ترجمہ:یعنی
جب تم میں سے کسی ایک کو تکیہ دیا جائے تاکہ تم اس
پر بیٹھ جاؤ یا اس پر
ٹیک لگا لو، تو تکیہ قبول کر لو، اسی طرح جب کوئی
شخص تم کو خوشبو یا دودھ دے، تو اس کو قبول کر لو، کیونکہ اس
میں بوجھ کم ہوتا ہے اور اگر تم ان
چیزوں کو قبول نہ کرو گے، تو اس سے تحفہ دینے والے کو اذیت
ہوگی اور اس سے آپس میں بغض و عدوات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔(المفاتیح
شرح مصابیح، جلد3، صفحہ 523، مطبوعہ دار النوادر، وزارة الأوقاف الكويتيہ)
اسی طرح کی حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے مراۃ
المناجیح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:” اگر میزبان اپنے مہمانوں کو آرام کے لیے تکیہ پیش کرے
اور سر میں ملنے کے لیے تیل،پینے کے لیے دودھ
یا لسّی، تو مہمان اسے رد نہ
کرے ،بلکہ بخوشی قبول کرے۔ عرب شریف میں تیل
بھی مہمان کی خاطر پیش ہوتا تھا، جیسے بہار میں اب
بھی تیل،عطر ، پان سے ہر آنے والے کی خاطر کی جاتی
ہے۔یعنی خوشبو دار تیل مگر حق یہ ہے کہ ہر
تیل مرادہے،خوشبودار ہو یا نہ ہو،حدیث کے مطلق کو اپنے اطلاق پر
رکھنا بہتر ہے۔ “(مراۃ
المناجیح، جلد4، صفحہ 359، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ ، گجرات)
صدر الشریعہ، بدر
الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:” ترمذی نے عبد اللہ
بن عمر رضی اﷲ
تعالی عنہما سے روایت کی
کہ رسول اللہ صلی
اﷲتعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:”تین چیزیں واپس نہ
کی جائیں، تکیہ اور تیل اور دودھ۔“بعض نے کہا
تیل سے مراد خوشبو ہے۔“(بھار شریعت، جلد3، حصہ 14، صفحہ 67، مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ)
بطورِ خاص خوشبو کے متعلق حدیث میں بیان ہوا کہ اس کو بھی
منع نہ کیا جائے، جیسا کہ
ترمذی شریف کی ہی روایت ہے:”عن
ابی عثمان النھدی قال قال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اذا اعطی احدکم الریحان
فلا یردہ فانہ خرج من الجنۃ“ترجمہ:حضرت ابو عثمان
نہدی رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو خوشبو
دی جائے، تو منع نہ کرے، کیونکہ
خوشبو جنت سے آئی ہے۔(سنن الترمذی، جلد5،
صفحہ 108، حدیث 2791، مطبوعہ مصر)
اسی طرح کی حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے مراۃ المناجیح میں
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:” اگرچہ دوسرے ہدیے بھی واپس کرنا خلاف اخلاق ہے
،مگر خوشبو واپس کرنا تو بہت ہی خشک مزاجی کی دلیل ہے کہ
اس میں وزن ہلکا قیمت معمولی خوشبو اعلیٰ ہے ۔“(مراۃ
المناجیح، جلد4، صفحہ352،
مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)
بخاری شریف
میں حدیث پاک ہے:”عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی
اللہ علیہ وسلم قال: يا نساء المسلمات لا تحقرن جارة لجارتها ولو فرسن شاة
“ترجمہ: حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ نے
بیان کیا کہ نبی
کریم صلی
اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا”اے
مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی عورت اپنی پڑوسن کے لیے کسی بھی
چیز کو ہدیہ
دینے
کے لیے حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کا کھر
ہی کیوں نہ ہو۔“(صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 153، حدیث 2566،
مطبوعہ دار طوق النجاۃ)
علامہ بدر الدین عینی رحمۃ
اللہ علیہ بخاری
شریف کی مذکورہ حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے
ہیں: ”والهدية إذا كانت يسيرة
فهي أدل على المودة وأسقط للمؤنة وأسهل على المهدي لإطراح التكليف“ترجمہ:تحفہ جب معمولی ہوتا ہے تو یہ محبت پر
زیادہ دلالت کرتا، مشقت کو ختم
کرتا اورتکلیف کم ہونے کی وجہ سے تحفہ دینے والے پر آسان ہوتا ہے۔(عمدۃ
القاری، جلد13، صفحہ 126،
مطبوعہ دار احیاء التراث
العربی ، بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟