Taiz Raftaar Mein Quran Pak Parhna Kaisa?

تیزرفتار سے قرآن پاک پڑھنا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-2591

تاریخ اجراء:17 شعبان المعظم 1445ھ/28 فروری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قراء حضرات نے قراءت کے جو تین درجے (ترتیل ، تدویر ، حدر) مقرر کیے ہیں ، اس میں اگر کوئی آخری حد یعنی حدر سے بھی زیادہ تیزی سے قرآن پاک پڑھے ، تو اس کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآن مجید عربی میں نازل ہوا اور قرآن پاک کو اُسی طرح پڑھنا لازم ہے کہ جسے قرآن کہا جاسکے ، لہٰذا اس کی درست تلفظ کے ساتھ قِراءَت کرنا ضروری ہے اور قِراءَ ت اسے کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے تمام حُروف ان کے اپنے مَخارِج سے اس طرح ادا کیے جائيں کہ ہر حَرف دوسرے حرف سے صحيح طور پر مُمتاز یعنی الگ نُماياں ہو ، زبر زیر وغیرہ اعراب اور مد وغیرہ کا لحاظ رکھا جائے ۔ قرآن مجید کی کسی بھی مقصد کے لیے کی گئی تلاوت میں  ایسی غلطیاں کرنا لَحنِ جَلی میں داخل اور حرام ہے اور ان غلطیوں سے بچنا فرض ہے ۔

   اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ قُرّاء حضرات نے ترتیلِ قرآن یعنی قرآن پاک پڑھنے کے جو تین درجے ترتیل ، تدویر ، حدر مقرر کیے ہیں ، قراءت کا اِن میں سے کسی ایک درجے کے مطابق ہونا ضروری ہے ، پھر حدر میں بھی معمولی تیز، درمیانہ  تیز اور بہت تیز کے درجے ہیں۔  اگر کوئی حدر کی صحیح تیز رفتار سے بھی زیادہ رفتار سے قرآن پاک پڑھے ، تو قرآنی الفاظ و حروف درست ادا نہیں ہوں گے یا اس طرح پڑھنے میں بعض حروف چھوٹ  جائیں گے ، جس کی وجہ سے پڑھنے والا حرام کا مرتکب اور گنہگار ہو گا ۔

   قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاترجمۂ کنز الایمان:’’اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘(پارہ29،سورہ مزّمل،آیت04)

   اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:’’رعایتِ وقوف اور ادائے مخارج کے ساتھ اور حروف کو مخارج کے ساتھ تا بہ امکان صحیح ادا کرنا نماز میں فرض ہے ۔‘‘(تفسیر خزائن العرفان ، پارہ29،سورہ مزّمل،آیت04)

   فتاوی عالمگیری میں ہے : ’’اللحن حرام بلا خلاف ‘‘ترجمہ:لَحن (قرآن پاک پڑھنے میں غلطی کرنا) بالاتفاق حرام ہے۔           (الفتاوی العالمگیریۃ ،ج5،ص317،مطبوعہ بیروت)

   بریقہ محمودیہ فی شرح طریقہ محمدیہ میں ہے:’’ والذي يكثر اللحن في القرآن إن كان قادرا على التعلم فليمتنع عن القراءة قبل التعلم فإنه عاص به ‘‘ترجمہ:وہ شخص جو قرآن پاک پڑھنے میں زیادہ غلطیاں کرتا ہے ، اگر وہ سیکھنے پر قادر ہے، تو سیکھنے سے پہلے قرآن پاک پڑھنے سے رُکا رہے ، کیونکہ وہ اس کے سبب گنہگار ہوتاہے۔ (بریقہ محمودیہ فی شرح طریقہ محمدیہ،ج4،ص36، مطبوعہ بیروت)

   موسوعہ فقہیہ میں ہے:’’(اللحن) أي الخطأ والميل عن الصواب، وهو نوعان: جلي وخفي واللحن الجلي: خطأ يطرأ على الألفاظ فيخل بعرف القراءة، سواء أخل بالمعنى أم لم يخل ۔۔۔وهذا النوع يحرم ، ملخصا “ ترجمہ:لحن کا معنی خطا اور درستگی سے ہٹ جانا ہے اور اِس کی دو قسمیں ہیں:جلی اور خفی۔لحنِ جلی ایسی خطاہے ،جو الفاظ پر طاری ہوتی ہےاور قراءت کے عُرف میں بگاڑ پیدا کرتی ہے ، چاہے معنیٰ میں خلل پیدا کرے یا نہ کرے اور لحن کی یہ قِسم حرام ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیہ الکویتیہ،ج10،ص181،مطبوعہ  وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية ، کویت)

   سیدی اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اِس قدر تجوید ، جس کے باعث حرف کوحرف سے امتیاز اور تلبیس و تبدیل سے احتراز حاصل ہو،واجباتِ عینیہ و اہم مُہِماتِ دینیہ سے ہے۔آدمی پر تصحیحِ مخارج میں سعیِ تام (یعنی مکمل کوشش) اور ہر حرف میں اُس کے مخرج سےٹھیک ادا کرنے کا قصد و اہتمام لازم کہ قرآن مطابق ما انزل اللہُ تعالیٰ پڑھے۔“(فتاویٰ رضویہ،ج6،ص261،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   سیدی اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:’’ترتیل کی تین حدیں ہیں۔ ہر حد اعلیٰ میں اس کے بعد کی حد ماخوذ و ملحوظ ہے ۔ حد اوّل :یہ کہ قرآن عظیم ٹھہر ٹھہر کر بآہستگی تلاوت کرے کہ سامع (سننے والا) چاہے ، تو ہر کلمے کو جدا جدا گِن سکے۔۔۔ الفاظ بہ تفخیم ادا ہوں ، حروف کو ان کی صفات شدت و جہر وامثالھا کے حقوق پورے دئے جائیں،اظہار و اخفا و تفخیم و ترقیق وغیرہا محسنات کا لحاظ رکھا جائے، یہ مسنون ہے اور اس کا ترک مکروہ و ناپسند ۔۔۔ دوم : مدووقف ووصل کے ضروریات اپنے اپنے مواقع پر ادا ہوں، کھڑے پڑے کا لحاظ رہے،حروف مذکورہ جن کے قبل نون یا میم ہوان کے بعد غنّہ نہ نکلے انّا کُنّا        کو ان کن یا انّاں کنّاں نہ پڑھا جائے ،باوجیم ساکنین جن کے بعد"ت"ہو بشدت ادا کیے جائیں کہ پ اور چ کی آواز نہ دیں ، جُہال جلدی میں ابتر اور تجتنبوا کو اپتر اور تچتنبوا پڑھتے ہیں ، حروف مطبقہ کا کسرہ ضمہ کی طرف مائل نہ ہونے پائے ۔ جہاں جب صراط وقاطعہ میں ص و ط کے اجتماع میں ،مثلًا"یستطیعون""لاتطع"بے خیالی کرنے والوں سے حرف تا بھی مشابہ طا  ادا ہوتا ہے، بلکہ بعض سے"عتو"میں بھی بوجہ تفخیم عین و ضمہ تا آواز مشابہ طا پیدا ہوتی ہے ۔ بالجملہ کوئی حرف و حرکت بے محل دوسرے کی شان اخذنہ کرے ،نہ کوئی حرف چُھوٹ جائے، نہ کوئی اجنبی پیدا ہو، نہ محدود ومقصود ہو نہ ممدود ، اس قدر ترتیل فرض و واجب ہے اور اس کا تارک گنہگار ۔۔۔ سوم :جو حروف وحرکات کی تصحیح ا ،  ع،ت ، ط، ث ، س ، ص، ح ، ہ ،ذ ، ز ، ظ وغیرہا میں تمیز کرے ۔ غرض ہر نقص و زیادت و تبدیل سے کہ مفسد معنی ہو احتراز یہ بھی فرض ہے ۔ ملخصا (فتاوی رضویہ،ج6،ص275تا 281 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاوی امجدیہ میں فرماتے ہیں : ”قرآن مجید کلامِ الٰہی ہے ، جو عربی زبان میں نازل ہوا ۔’’ قال صدر الشریعۃ فی التوضیح : القراٰن ھو النظم الدال علی المعنیٰ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا : ﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا (پارہ 12 ، سورۃ یُوسُف ، الاٰیۃ 02) ۔ ﴿بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ(پارہ 19 ، سورۃ الشُعَراء ، الاٰیۃ 195) ۔ پس قرآن پڑھنے کا یہ مطلب ہے کہ اس عبارت کو اس طرح پڑھا جائے کہ اس میں تبدیل و تغیر نہ ہونے پائے ، ورنہ اکثر جگہ وہ الفاظ بےمعنی ہو جائیں گے یا معنی فاسد ہو کر کچھ کا کچھ ہو جائے گا ، لہٰذا اس کو اسی طور پر ادا کرنا لازم ہے جس کو قرآن کہا جائے اور اس کے لیے یہ ضرور ہے کہ ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کیا جائے، مثلا: ث ، س ، ص ، ز ، ظ ، ح ، ہ ، ء ، ع کہ ان حروف میں اگر امتیاز نہ ہو،تو وہ لفظ ہی نہ رہا ، جو جبرئیل علیہ السلام نے پڑھا اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی، جس کی نسبت اللہ تبارَکَ و تعالیٰ نے فرمایا :﴿یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِہٖ (پارہ 4 ، سورۃ اٰل عمرٰن ، الاٰیۃ 164) ۔۔۔ لازم ہے کہ قرآن مجید صحیح پڑھے ، ماانزل اللہ میں تغیر نہ کرے ۔ ملخصا ‘‘(فتاوی امجدیہ ، ج1 ، ص156۔157 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم